AIOU 0464 Solved Assignments Spring 2025


AIOU 0464 اسلامی فقہ Solved Assignment 1 Spring 2025


AIOU 0464 Assignment 1


سوال نمبر 1: نکاح کی شرعی حیثیت اور اس کے مقاصد بیان کریں۔ ولایت نکاح سے کیا مراد ہے؟ اسلامی قانون میں ولی کے نکاح میں کردار کی وضاحت کریں۔

نکاح کی شرعی حیثیت ایک اہم معاشرتی معاہدہ اور عبادت ہے۔ اس کے بنیادی مقاصد میں پاکدامنی کا حصول، نسل کی بقا، اور ایک مضبوط خاندانی نظام کی تشکیل شامل ہیں۔ ولایت نکاح سے مراد نکاح کے معاملے میں کسی بالغ عورت کے ولی (سرپرست) کا حق اور اختیار ہے۔ اسلامی قانون میں ولی کا کردار مختلف فقہی آراء کے مطابق مختلف ہوتا ہے، تاہم عام طور پر نابالغہ یا ایسی بالغہ جو اپنی مرضی کے اظہار کے قابل نہ ہو، کے نکاح میں ولی کی رضامندی ضروری ہوتی ہے۔ بالغ اور باشعور عورت کو عام طور پر اپنی مرضی سے نکاح کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے، لیکن بعض حالات میں ولی کی مشاورت یا موجودگی کو بہتر سمجھا جاتا ہے۔


سوال نمبر 2: مہر کی تعریف کریں اور اس کی اقسام اور حکمت کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بیان کریں۔

مہر وہ مالی حق ہے جو نکاح کے بدلے میں شوہر کی طرف سے بیوی کو دیا جاتا ہے۔ یہ بیوی کا شرعی حق ہے اور اس کی ادائیگی شوہر پر لازم ہے۔ مہر کی کوئی متعین کم از کم یا زیادہ سے زیادہ مقدار شریعت میں مقرر نہیں ہے، یہ فریقین کی رضامندی سے طے پاتا ہے۔ مہر کی اہم اقسام میں مہر معجل (جو فوری طور پر ادا کیا جائے) اور مہر مؤجل (جو کسی خاص وقت یا طلاق کی صورت میں ادا کیا جائے) شامل ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مہر کی حکمت عورت کا مالی تحفظ، اس کی عزت و تکریم کا اظہار، اور نکاح کے رشتے کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔


سوال نمبر 3: خلع سے کیا مراد ہے؟ اس کا طلاق سے فرق واضح کریں اور اس کے شرعی اصول بیان کریں۔

خلع سے مراد بیوی کا اپنے شوہر سے مالی معاوضہ دے کر طلاق حاصل کرنا ہے۔ یہ طلاق کی ایک ایسی قسم ہے جس میں بیوی اپنی مرضی سے شوہر سے علیحدگی اختیار کرنا چاہتی ہے اور اس کے بدلے میں کچھ مالی قربانی دیتی ہے۔ طلاق اور خلع میں بنیادی فرق یہ ہے کہ طلاق کا حق اصولی طور پر شوہر کو حاصل ہوتا ہے، جبکہ خلع بیوی کی درخواست پر ہوتا ہے۔ طلاق عام طور پر بلا معاوضہ یا شوہر کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے، جبکہ خلع میں بیوی شوہر کو کچھ مالی فائدہ پہنچاتی ہے۔ خلع کے شرعی اصولوں میں فریقین کی رضامندی، بیوی کی طرف سے معاوضے کی پیشکش، اور شوہر کی طرف سے قبولیت شامل ہیں۔ اگر شوہر بغیر کسی معقول وجہ کے خلع دینے سے انکار کرے تو بیوی شرعی عدالت سے رجوع کر سکتی ہے۔


سوال نمبر 4: طلاق کے بعد عدت کا تصور کیا ہے؟ اس کی حکمت اور شرعی حیثیت کی وضاحت کریں۔

طلاق کے بعد عدت سے مراد وہ مخصوص مدت ہے جو مطلقہ عورت پر لازم ہوتی ہے کہ وہ اس دوران دوسرا نکاح نہیں کر سکتی۔ اس مدت کا تعین مختلف حالات کے مطابق ہوتا ہے، مثلاً اگر عورت حاملہ نہ ہو تو یہ تین ماہواریاں ہوتی ہیں، اور اگر حاملہ ہو تو وضع حمل تک ہوتی ہے۔ عدت کا تصور شریعت میں ایک اہم قانونی اور معاشرتی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی حکمت میں نسب کی حفاظت (تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ بچے کا باپ کون ہے)، مطلقہ عورت کو کچھ وقت دینا تاکہ وہ طلاق کے صدمے سے نکل سکے اور سوچ سمجھ کر اگلا فیصلہ کر سکے، اور شوہر کو رجوع کرنے کا موقع فراہم کرنا (اگر طلاق رجعی ہو) شامل ہیں۔


سوال نمبر 5: اسلام میں طلاق کی شرعی حیثیت اور اس کے مختلف مراحل کی وضاحت کریں۔

اسلام میں طلاق کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے لیکن بعض ناگزیر حالات میں اس کی اجازت دی گئی ہے۔ طلاق کی شرعی حیثیت ایک قانونی حق ہے جو مرد کو بعض شرائط کے ساتھ حاصل ہے۔ طلاق کے مختلف مراحل میں سب سے پہلے شوہر کی طرف سے بیوی کو طلاق کا اعلان کرنا شامل ہے۔ طلاق کی دو اہم اقسام ہیں: طلاق رجعی (جس میں عدت کے دوران شوہر رجوع کر سکتا ہے) اور طلاق بائن (جس میں عدت کے بعد رجوع ممکن نہیں رہتا جب تک کہ نیا نکاح نہ کیا جائے)۔ طلاق دینے کا ایک اہم شرعی اصول یہ ہے کہ یہ حالت طہر میں دی جائے جس میں بیوی سے مباشرت نہ کی گئی ہو۔ تین طلاقیں ایک ہی وقت میں دینا مکروہ اور بعض فقہی آراء کے مطابق ایک ہی شمار ہوتی ہیں۔ اسلام طلاق سے پہلے صلح اور مصالحت کی کوشش کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔


AIOU 0464 اسلامی فقہ Solved Assignment 2 Spring 2025


AIOU 0464 Assignment 2


سوال نمبر 1: اسلام میں طلاق کی شرعی حیثیت اور اس کے مراحل کو تفصیل سے بیان کریں۔

طلاق اسلام میں ایک ناپسندیدہ عمل ہے لیکن بعض حالات میں اس کی اجازت دی گئی ہے۔ شرعی حیثیت سے یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے مرد اور عورت کے درمیان قانونی نکاح کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ طلاق کے مختلف مراحل ہیں جن میں پہلا مرحلہ شوہر کا اپنی بیوی کو طلاق دینا ہے۔ اس کے بعد عدت کا زمانہ آتا ہے جس میں عورت دوبارہ شادی نہیں کر سکتی۔ عدت کے بعد اگر میاں بیوی میں صلح نہ ہو تو طلاق حتمی ہو جاتی ہے۔ طلاق کے کچھ شرعی اصول و ضوابط ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہے۔


سوال نمبر 2: ایلاء (قسم کھا کر بیوی سے دوری اختیار کرنا) کا کیا مفہوم ہے؟ اس کے شرعی اصول اور اثرات کی وضاحت کریں۔

ایلاء کا مفہوم یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی سے صحبت نہ کرنے کی قسم کھا لے اور اس پر قائم رہے۔ شرعی اصول کے مطابق اگر شوہر چار ماہ تک اپنی قسم پر قائم رہتا ہے تو بیوی کو حق حاصل ہے کہ وہ عدالت میں فسخ نکاح کا دعویٰ دائر کرے۔ اس صورت میں عدالت میاں بیوی کے درمیان جدائی کرا سکتی ہے۔ ایلاء کے اثرات یہ ہوتے ہیں کہ اگر چار ماہ گزر جائیں اور شوہر رجوع نہ کرے تو بیوی کو طلاق کا حق مل جاتا ہے۔


سوال نمبر 3: ایلاء اور ظہار میں کیا فرق ہے؟ ان کے شرعی احکام اور اثرات پر روشنی ڈالیں۔

ایلاء میں شوہر بیوی سے صحبت نہ کرنے کی قسم کھاتا ہے جبکہ ظہار میں شوہر اپنی بیوی کو اپنی کسی محرم رشتہ دار کی پشت سے تشبیہ دیتا ہے، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے ازدواجی تعلقات ختم کرنا چاہتا ہے۔ ایلاء کا شرعی حکم یہ ہے کہ چار ماہ گزرنے کے بعد بیوی کو فسخ نکاح کا حق مل جاتا ہے۔ ظہار کا شرعی حکم یہ ہے کہ شوہر کو کفارہ ادا کرنا ہوتا ہے جس کے بعد وہ اپنی بیوی سے دوبارہ تعلقات قائم کر سکتا ہے۔ اگر وہ کفارہ ادا نہیں کرتا تو بیوی عدالت سے رجوع کر سکتی ہے۔


سوال نمبر 4: اسلامی قوانین میں قاضی کے فرائض اور عدالتی انصاف کے بنیادی اصول کیا ہیں؟ تفصیل سے بیان کریں۔

اسلامی قوانین میں قاضی کے اہم فرائض میں فریقین کے درمیان انصاف قائم کرنا، شرعی قوانین کے مطابق فیصلے کرنا، مظلوم کی داد رسی کرنا اور معاشرے میں امن و امان برقرار رکھنا شامل ہیں۔ عدالتی انصاف کے بنیادی اصولوں میں غیر جانبداری، تمام فریقین کو اپنی بات کہنے کا موقع دینا، ٹھوس شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کرنا اور جلد از جلد انصاف فراہم کرنا شامل ہیں۔ قاضی کو علم، تقویٰ اور عدل و انصاف کے اصولوں پر سختی سے کاربند رہنا چاہیے۔


سوال نمبر 5: قضاء (عدالتی نظام) کی اسلامی شریعت میں کیا حیثیت ہے؟ اسلامی عدالتی نظام کے بنیادی اصول بیان کریں۔

قضاء یعنی عدالتی نظام اسلامی شریعت میں ایک انتہائی اہم ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ معاشرے میں انصاف کے قیام، حقوق کے تحفظ اور تنازعات کے حل کے لیے ضروری ہے۔ اسلامی عدالتی نظام کے بنیادی اصولوں میں شریعت کے مطابق فیصلہ کرنا، تمام شہریوں کے لیے قانون کی نظر میں برابری، غیر جانبدارانہ سماعت، شفافیت، فوری انصاف کی فراہمی اور مظلوم کی دادرسی شامل ہیں۔ اس نظام کا مقصد عدل و انصاف پر مبنی ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا ہے جس میں ہر فرد کے حقوق محفوظ ہوں۔


AIOU 0464 اسلامی فقہ Solved Assignment 3 Spring 2025


AIOU 0464 Assignment 3


سوال نمبر 1: ثبوت دعویٰ (دعویٰ کو ثابت کرنے کے اصول) کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اس کے لیے کن ذرائع کو قابل قبول سمجھا جاتا ہے؟ قسم (حلف) کی شرعی اہمیت اور اس کے انکار کے قانونی اثرات پر تفصیلی بحث کریں۔

ثبوت دعویٰ کے اصول شریعت میں قانونی چارہ جوئی کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ان کی شرعی حیثیت قرآن و سنت اور اجماع امت پر مبنی ہے۔ دعویٰ ثابت کرنے کے لیے جن ذرائع کو عام طور پر قابل قبول سمجھا جاتا ہے ان میں گواہی (شہادت)، دستاویزات (بینات)، قرائن (امارات)، اور مدعی علیہ کا اقرار (اعتراف) شامل ہیں۔ قسم (حلف) کی شرعی اہمیت یہ ہے کہ یہ کسی معاملے میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔ جب کوئی شخص اللہ کے نام پر قسم کھاتا ہے تو اس کی بات کو زیادہ معتبر سمجھا جاتا ہے۔ اگر مدعی علیہ قسم کھانے سے انکار کر دے تو اسے دعوے کی صحت کا اعتراف تصور کیا جا سکتا ہے اور اس کے خلاف فیصلہ دیا جا سکتا ہے۔ تاہم، قسم کے انکار کے قانونی اثرات مختلف فقہی آراء کے مطابق مختلف ہو سکتے ہیں۔


سوال نمبر 2: قذف (جھوٹا الزام زنا) کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ قذف کی سزا اور اس کے اثرات پر تفصیلی گفتگو کریں۔

قذف شرعاً حرام اور ایک سنگین جرم ہے جس کا مطلب کسی پاکدامن مرد یا عورت پر زنا کا جھوٹا الزام لگانا ہے۔ قذف کی شرعی حیثیت ایک کبیرہ گناہ کی ہے اور اس پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ قذف کی سزا (حد قذف) اسلامی قانون میں 80 کوڑے ہے۔ اس سزا کا مقصد معاشرے میں پاکدامنی اور عزت و آبرو کی حفاظت کرنا ہے۔ قذف کے معاشرتی اثرات بہت منفی ہوتے ہیں۔ اس سے متاثرہ شخص کی ساکھ مجروح ہوتی ہے، خاندانوں میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے، اور معاشرے میں بد اعتمادی پھیلتی ہے۔ قذف کرنے والے کی گواہی بھی بعض صورتوں میں ناقابل قبول قرار دی جاتی ہے۔


سوال نمبر 3: ثبوت دعویٰ کے لیے گواہی اور قرائن میں کیا فرق ہے؟ شرعی احکام کی روشنی میں وضاحت کریں۔

ثبوت دعویٰ کے لیے گواہی (شہادت) اور قرائن (امارات) ثبوت کے دو مختلف طریقے ہیں۔ گواہی سے مراد کسی واقعے کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے یا کانوں سے سننے والے شخص کا بیان ہے۔ گواہی میں براہ راست معلومات شامل ہوتی ہیں۔ جبکہ قرائن ایسے ظاہری حالات و واقعات ہوتے ہیں جو کسی پوشیدہ حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ قرائن براہ راست ثبوت نہیں ہوتے بلکہ ان سے کسی واقعے کا امکان یا گمان پیدا ہوتا ہے۔ شرعی احکام کی روشنی میں گواہی کو قرائن پر فوقیت حاصل ہے کیونکہ یہ براہ راست علم پر مبنی ہوتی ہے۔ تاہم، بعض صورتوں میں جب براہ راست گواہی میسر نہ ہو تو قرائن کو بھی بطور ثبوت استعمال کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ وہ قوی اور واضح ہوں۔


سوال نمبر 4: قصاص اور دیت میں قاتل اور مقتول کے ورثاء کے حقوق و فرائض کیا ہوتے ہیں؟ تفصیلی تجزیہ کریں۔

قصاص کا مطلب ہے جان کے بدلے جان لینا۔ یہ قتل عمد کی صورت میں مقتول کے ورثاء کا حق ہے کہ وہ قاتل سے قصاص کا مطالبہ کریں۔ قصاص کا مطالبہ کرنا یا معاف کر دینا اور دیت پر راضی ہو جانا مقتول کے بالغ ورثاء کا حق ہے۔ نابالغ ورثاء کے معاملے میں ولی ان کے بہترین مفاد میں فیصلہ کرتا ہے۔ دیت وہ مالی معاوضہ ہے جو قتل خطا یا قتل عمد کی صورت میں (اگر ورثاء قصاص معاف کر دیں تو) قاتل پر لازم ہوتا ہے۔ دیت کی مقدار شرعی قانون کے مطابق مقرر ہوتی ہے۔ قاتل کا فرض ہے کہ وہ قصاص کے مطالبے کی صورت میں خود کو قانون کے حوالے کرے اور اگر دیت پر فیصلہ ہو تو اسے مقررہ وقت میں ادا करे۔ مقتول کے ورثاء کا حق ہے کہ وہ قصاص کا مطالبہ کریں یا دیت قبول کریں یا قاتل کو معاف کر دیں۔ ان کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ انصاف پر قائم رہیں اور ذاتی عناد کی بنا پر ظلم سے کام نہ لیں۔


سوال نمبر 5: زنا اور قذف کے مقدمات میں گواہی کے معیار پر اسلامی فقہ کی روشنی میں گفتگو کریں۔

زنا اور قذف کے مقدمات میں گواہی کا معیار اسلامی فقہ میں بہت سخت رکھا گیا ہے۔ زنا کے اثبات کے لیے چار عادل بالغ مرد گواہوں کی براہ راست گواہی ضروری ہے جنہوں نے فعل زنا کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو۔ اگر گواہوں کی تعداد چار سے کم ہو یا ان کی گواہی میں تضاد ہو تو زنا کا الزام ثابت نہیں ہوتا اور الٹا الزام لگانے والوں پر قذف کی حد جاری کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح، قذف کے مقدمے میں اگر مدعی اپنے الزام کو شرعی طور پر ثابت نہ کر سکے (یعنی چار عادل گواہ پیش نہ کر سکے) تو اس پر قذف کی سزا جاری کی جاتی ہے۔ ان سخت معیارات کا مقصد معاشرے میں پاکدامنی کی حفاظت کرنا اور کسی پر ناحق الزام تراشی سے بچانا ہے۔ اسلامی فقہ میں گواہی کے لیے گواہوں کا عادل ہونا (یعنی نیک سیرت، جھوٹ سے پرہیز کرنے والا اور شرعی احکام پر عمل کرنے والا ہونا) بھی ضروری ہے۔


AIOU 0464 اسلامی فقہ Solved Assignment 4 Spring 2025


AIOU 0464 Assignment 4


سوال نمبر 1: اسلامی قانون میں سرقہ (چوری) کی تعریف کیا ہے؟ اس کے ثبوت اور شرائط تفصیل سے بیان کریں۔

اسلامی قانون میں سرقہ کا مطلب ہے کسی دوسرے شخص کا مال خفیہ طور پر اس کی رضامندی کے بغیر لینا، جس کی مالیت شرعی نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ ہو۔ اس کے ثبوت کے لیے دو عادل گواہوں کی گواہی یا چور کا اعتراف ضروری ہے۔ سرقہ ثابت ہونے کی شرائط میں مال کا محفوظ جگہ سے لیا جانا، بالغ اور عاقل چور ہونا، اور چوری شدہ مال کا نصاب کی حد تک پہنچنا شامل ہیں۔


سوال نمبر 2: اسلام میں شراب نوشی (شرب خمر) کی ممانعت کی حکمت کیا ہے؟ اس کی سزا اور اس پر فقہی آراء بیان کریں۔

اسلام میں شراب نوشی کی ممانعت کی حکمت عقل کی حفاظت کرنا، معاشرے میں فساد اور برائیوں کو روکنا، اور انسان کو عبادات اور فرائض کی ادائیگی کے لیے تیار رکھنا ہے۔ اس کی شرعی سزا کوڑوں کی حد ہے، جس کی تعداد مختلف فقہی آراء کے مطابق مختلف ہو سکتی ہے۔ بعض فقہاء کے نزدیک اس کی سزا 40 کوڑے اور بعض کے نزدیک 80 کوڑے ہیں۔ اس پر فقہی آراء مختلف ہیں لیکن حرمت پر سب کا اتفاق ہے۔


سوال نمبر 3: تعزیرات سے کیا مراد ہے؟ حدود اور تعزیر میں فرق کو تفصیل سے واضح کریں۔ اسلامی قانون میں تعزیری سزائیں دینے کا طریقہ کار کیا ہے؟ قاضی کو تعزیر میں کتنی صوابدید حاصل ہوتی ہے؟

تعزیرات سے مراد وہ سزائیں ہیں جو حدود (قرآن و سنت میں متعین سزائیں) کے علاوہ دیگر جرائم پر قاضی اپنی صوابدید سے لگاتا ہے۔ حدود اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ناقابل تغیر سزائیں ہیں، جبکہ تعزیرات جرم کی نوعیت اور حالات کے مطابق قاضی کی رائے پر منحصر ہوتی ہیں۔ اسلامی قانون میں تعزیری سزائیں دینے کا طریقہ کار یہ ہے کہ قاضی جرم ثابت ہونے پر مجرم کو مناسب سزا دیتا ہے جس میں قید، جرمانہ، کوڑے یا دیگر تادیبی اقدامات شامل ہو سکتے ہیں۔ قاضی کو تعزیر میں وسیع صوابدید حاصل ہوتی ہے تاکہ وہ عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کر سکے۔


سوال نمبر 4: اسلامی قانون میں انفرادی اور اجتماعی جرائم کی تعریف کریں اور ان کے درمیان فرق کو واضح کریں۔ تعزیری قوانین کے تحت دیوانی (معاملات) معاملات میں سزائیں کس طرح دی جاتی ہیں؟ تفصیل سے وضاحت کریں۔

اسلامی قانون میں انفرادی جرائم وہ ہیں جو کسی ایک شخص کی طرف سے سرزد ہوتے ہیں اور جن کا اثر براہ راست کسی ایک فرد پر پڑتا ہے، جیسے قتل، چوری، زنا وغیرہ۔ اجتماعی جرائم وہ ہیں جن کا اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے، جیسے بغاوت، فساد فی الارض، اور امن عامہ میں خلل ڈالنا۔ ان کے درمیان بنیادی فرق ان کے مرتکب اور ان کے اثرات کی نوعیت میں ہے۔ تعزیری قوانین کے تحت دیوانی معاملات میں سزائیں عام طور پر مالی جرمانے، تادیبی قید یا دیگر تادیبی اقدامات کی صورت میں دی جاتی ہیں تاکہ فریقین کے درمیان انصاف قائم ہو اور آئندہ ایسے تنازعات سے بچا جا سکے۔ ان سزاؤں کا مقصد مالی نقصان کا ازالہ اور غلطی کرنے والے کی اصلاح ہوتا ہے۔


سوال نمبر 5: اسلامی قانون میں سرقہ ذو الہاء اور خیانت میں فرق کیا ہے؟ ان پر عائد سزائیں کن اصولوں پر مبنی ہیں؟

اسلامی قانون میں سرقہ ذو الہاء سے مراد مسلح ڈاکہ زنی یا رہزنی ہے جس میں چوری کے ساتھ ساتھ طاقت کا استعمال یا لوگوں کو خوفزدہ کرنا شامل ہوتا ہے۔ خیانت کا مطلب ہے کسی امانت میں بددیانتی کرنا یا کسی کے سپرد کی گئی چیز میں غیر قانونی تصرف کرنا۔ ان دونوں میں بنیادی فرق جرم کی نوعیت اور اس میں استعمال ہونے والی طاقت یا بدنیتی کی سطح کا ہے۔ سرقہ ذو الہاء کی سزا عام چوری سے زیادہ سخت ہوتی ہے اور اس میں قتل یا اعضاء کاٹنے کی سزا بھی ہو سکتی ہے، جو جرم کی سنگینی اور کیے گئے نقصان کی نوعیت پر منحصر ہے۔ خیانت کی سزا تعزیری نوعیت کی ہوتی ہے اور اس میں مالی جرمانہ، تادیبی قید یا دیگر مناسب سزائیں شامل ہو سکتی ہیں، جو بددیانتی کی نوعیت اور کیے گئے نقصان کے مطابق ہوتی ہیں۔ ان سزاؤں کا بنیادی اصول عدل و انصاف کا قیام اور معاشرے میں امن و امان برقرار رکھنا ہے۔

No comments:

Post a Comment