AIOU 0436 Solved Assignments Spring 2025


AIOU 0436 سیرت طیبہ Solved Assignment 1 Spring 2025


AIOU 0436 Assignment 1


سوال نمبر 1- قبل از اسلام عربوں کے اخلاقی، معاشی اور سیاسی حالات پر روشنی ڈالیں۔

اہل عرب قبل از اسلام اخلاقی پستی کا شکار تھے، شراب نوشی، جوا، لوٹ مار اور قبائلی جھگڑے عام تھے۔ معاشی طور پر تجارت ان کا اہم ذریعہ معاش تھا، لیکن سود خوری اور کمزوروں کا استحصال رائج تھا۔ سیاسی طور پر جزیرہ نما عرب مختلف قبائل میں بٹا ہوا تھا جن کے درمیان اکثر اوقات جنگیں رہتی تھیں، کوئی مرکزی حکومت موجود نہیں تھی۔


سوال نمبر 2- بعثت سے قبل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور کردار پر جامع نوٹ تحریر کریں۔

بعثت سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی راست گوئی، امانت داری، رحم دلی اور انصاف پسندی کی وجہ سے "صادق" اور "امین" کے القاب سے مشہور تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ کمزوروں کی مدد کی، یتیموں کی کفالت کی اور معاشرے میں صلح و آشتی قائم کرنے کی کوششیں کیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار پاکیزہ، بے داغ اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا مظہر تھا۔


سوال نمبر 3- بنو ہاشم کا مقاطعہ (بائیکاٹ) اور سفر طائف پر علیحدہ علیحدہ نوٹ تحریر کریں۔

بنو ہاشم کا مقاطعہ (بائیکاٹ): جب قریش نے اسلام کی مخالفت میں شدت اختیار کی تو انہوں نے بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کا معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ کر دیا۔ یہ محاصرہ تقریباً تین سال تک جاری رہا جس میں مسلمانوں اور ان کے حامیوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بھوک اور پیاس نے ان کی ہمت آزمائی لیکن وہ اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے۔

سفر طائف: مکہ میں اسلام کی تبلیغ میں مشکلات کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا سفر اختیار کیا تاکہ وہاں کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں۔ لیکن اہل طائف نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو نہ صرف ٹھکرا دیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سنگ باری بھی کی۔ اس صورتحال میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ہدایت کی دعا کی۔


سوال نمبر 4- تحویل قبلہ اور غزوہ بنی قینقاع پر علیحدہ علیحدہ جامع مضمون قلمبند کریں۔

تحویل قبلہ: تحویل قبلہ سے مراد مسلمانوں کا بیت المقدس کی بجائے خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا ہے۔ یہ واقعہ ہجرت کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد پیش آیا۔ اس تبدیلی کا مقصد مسلمانوں کی ایک مستقل اور جداگانہ شناخت قائم کرنا اور قبلہ ابراہیمی کی طرف رجوع کرنا تھا۔

غزوہ بنی قینقاع: غزوہ بنی قینقاع ہجرت کے دوسرے سال پیش آیا۔ بنی قینقاع مدینہ کے ایک یہودی قبیلے کا نام تھا جنہوں نے صلح کے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور ایک مسلمان خاتون کے ساتھ بدتمیزی کی۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کیا اور انہیں مدینہ سے جلاوطن کر دیا گیا۔


سوال نمبر 5- بنو قریظہ کی بدعہدی اور ان کے خاتمے پر جامع نوٹ تحریر کریں۔

بنو قریظہ بھی مدینہ کے ایک یہودی قبیلے کا نام تھا جنہوں نے غزوہ خندق کے موقع پر مسلمانوں کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی غداری کی اور مشرکین مکہ کے ساتھ مل گئے۔ جب مشرکین کا محاصرہ ختم ہو گیا تو مسلمانوں نے بنو قریظہ کا محاصرہ کیا اور ان کی بدعہدی ثابت ہونے پر ان کے مردوں کو قتل اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا گیا۔ یہ واقعہ مسلمانوں کے ساتھ غداری کی سنگین سزا کی ایک مثال ہے۔


AIOU 0436 سیرت طیبہ Solved Assignment 2 Spring 2025


AIOU 0436 Assignment 2


سوال نمبر 1- غزوہ حنین اور طائف پر علیحدہ علیحدہ نوٹ تحریر کریں۔

غزوہ حنین شوال 8 ہجری میں مکہ فتح ہونے کے بعد قبیلہ ہوازن اور ثقیف سے ہوا۔ مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزار تھی اور ان کے پاس بہت زیادہ مال غنیمت آیا۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کو ابتداء میں کچھ مشکلات پیش آئیں لیکن بالآخر فتح مسلمانوں کی ہوئی۔

غزوہ طائف غزوہ حنین کے فوراً بعد شوال 8 ہجری میں ہی پیش آیا۔ یہ دراصل قبیلہ ثقیف کے خلاف مہم تھی جنہوں نے غزوہ حنین میں ہوازن کا ساتھ دیا تھا۔ مسلمانوں نے طائف کا محاصرہ کیا لیکن یہ محاصرہ طویل ہو گیا اور بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاصرہ ختم کرنے کا حکم دے دیا۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کو فتح حاصل نہیں ہوئی۔


سوال نمبر 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمۃ للعالمین کا ایک مختصر معاشی استحصال کا خاتمہ ہے۔ اس پر نوٹ لکھیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت تمام جہانوں کے لیے تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشی استحصال کے خاتمے کے لیے بہت سے اقدامات کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کو حرام قرار دیا جو کہ معاشی استحصال کی ایک بڑی وجہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپ تول میں کمی کرنے سے منع فرمایا اور عدل و انصاف پر مبنی معاشی نظام کی تعلیم دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کا نظام قائم کیا جس سے غریبوں اور محتاجوں کی مدد کی جاتی تھی۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی جس میں معاشی ناانصافی اور استحصال کی کوئی جگہ نہیں تھی۔


سوال نمبر 3- رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا غلاموں سے حسن سلوک اور جامع مضمون تحریر کریں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی بہت تاکید فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غلام بھی انسان ہیں اور ان کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آنا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں کو وہی کھانے اور لباس دینے کی ہدایت فرمائی جو خود کھاتے اور پہنتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنے سے منع فرمایا اور ان کی غلطیوں کو معاف کرنے کی تلقین کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب دی اور بہت سے غلاموں کو اپنی ذاتی رقم سے آزاد کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن سلوک کی وجہ سے بہت سے غلام مشرف بہ اسلام ہوئے اور معاشرے میں باعزت مقام حاصل کیا۔


سوال نمبر 4- حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے خانگی انتظام پر مفصل نوٹ تحریر کریں۔

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا خانگی انتظام نہایت سادہ اور مثالی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے کاموں میں اپنی ازواج مطہرات کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں صفائی ستھرائی کا خیال رکھتے، برتن دھوتے اور کپڑوں کی مرمت کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ کے ساتھ نہایت محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر کو نظم و ضبط کا نمونہ بنا رکھا تھا اور تمام امور باہمی مشورے سے انجام پاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی زندگی تمام مسلمانوں کے لیے ایک بہترین مثال ہے۔


سوال نمبر 5- شہری کا مفہوم اور شریعت کی اقسام لکھنے کے بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ذی وقار شہری پر جامع نوٹ تحریر کریں۔

شہری سے مراد کسی ریاست یا معاشرے کا وہ فرد ہے جو اس کے قوانین اور ضوابط کا پابند ہو اور اس کے حقوق و فرائض رکھتا ہو۔ شریعت کی اقسام میں بنیادی طور پر عبادات، معاملات، عقوبات اور اخلاقیات شامل ہیں۔ عبادات میں نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ شامل ہیں۔ معاملات میں خرید و فروخت، نکاح و طلاق اور وراثت وغیرہ کے احکام آتے ہیں۔ عقوبات میں جرائم کی سزائیں بیان کی جاتی ہیں۔ اخلاقیات میں حسن سلوک، صدق و امانت اور عدل و انصاف جیسے امور شامل ہیں۔

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ذی وقار شہری ایک مثالی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاست مدینہ کے قوانین کی مکمل پاسداری فرمائی اور ہمیشہ عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں کو ترجیح دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام شہریوں کے حقوق کا خیال رکھا اور کسی قسم کی ناانصافی کو برداشت نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جس میں تمام شہری امن و امان اور بھائی چارے کے ساتھ رہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بحیثیت شہری تمام لوگوں کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔


AIOU 0436 سیرت طیبہ Solved Assignment 3 Spring 2025


AIOU 0436 Assignment 3


سوال نمبر 1- رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نظام تعلیم پر جامع نوٹ تحریر کریں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نظام تعلیم ایک جامع اور ہمہ گیر نظام تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم حاصل کرنے اور سکھانے پر بہت زور دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کو تعلیم کا مرکز بنایا جہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قرآن و سنت کی تعلیم دی جاتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف وفود کو تعلیم دینے کے لیے معلمین بھی بھیجے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نظام تعلیم صرف دینی علوم تک محدود نہیں تھا بلکہ اس میں زندگی کے تمام پہلوؤں سے متعلق رہنمائی موجود تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت اس انداز میں کی کہ وہ علم کے ساتھ ساتھ عمل کرنے والے بھی بنیں۔


سوال نمبر 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغی خصوصیات قلمبند کریں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغی خصوصیات بہت نمایاں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ حکمت اور نرمی سے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق حسنہ آپ کی تبلیغ کا اہم ذریعہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی پر جبر نہیں کیا بلکہ محبت اور دلیل سے لوگوں کے دلوں کو فتح کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو واضح، آسان اور دلنشین ہوتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی ذہنی سطح اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تبلیغ فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی نمونہ پیش کر کے لوگوں کو اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کی ترغیب دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کا اثر دائمی اور ہمہ گیر ثابت ہوا۔


سوال نمبر 3- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شخصی اوصاف میں عزم و استقلال پر مفصل مضمون تحریر کریں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شخصی اوصاف میں عزم و استقلال بہت نمایاں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشن کی راہ میں آنے والی ہر مشکل اور رکاوٹ کا صبر و استقلال سے مقابلہ کیا۔ کفار مکہ کی مخالفت، طائف میں سنگباری اور دیگر سخت حالات کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مقصد سے ذرہ بھر بھی نہیں ہچکچائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عزم اس قدر مضبوط تھا کہ کسی بھی لالچ یا خوف سے آپ کو اپنے راستے سے نہیں ہٹایا جا سکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے اپنے مشن کو جاری رکھا اور بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عزم و استقلال تمام مسلمانوں کے لیے ایک بہترین مثال ہے۔


سوال نمبر 4- حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام الٰہی پر عمل کے اہتمام اور دینی معاملات میں میانہ روی پر علیحدہ علیحدہ نوٹ لکھیں۔

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم احکام الٰہی پر عمل کرنے کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کی بلکہ ہمیشہ بڑھ چڑھ کر اس پر عمل کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف خود عمل کرتے تھے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قرآن مجید کی عملی تفسیر تھی۔

دینی معاملات میں میانہ روی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا اہم حصہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ افراط و تفریط سے بچنے کی تلقین فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادات اور دیگر دینی امور میں اعتدال اور آسانی پیدا کرنے کی ہدایت فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دین میں غلو سے بچو کیونکہ اس سے پہلے بہت سی قومیں ہلاک ہو گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ تمام دینی معاملات میں میانہ روی اختیار کرنے کی بہترین مثال ہے۔


سوال نمبر 5- رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمومی دفاعی اصول و ضوابط اور اقدامی تدابیر پر جامع نوٹ تحریر کریں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمومی دفاعی اصول و ضوابط نہایت جامع اور حکمت پر مبنی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ امن کو ترجیح دی لیکن ضرورت پڑنے پر دفاع کے لیے مکمل تیاری کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاعی اصول یہ تھا کہ دشمن کو اپنی طاقت سے مرعوب رکھا جائے تاکہ وہ حملہ کرنے کی جرات نہ کر سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاسوسی کے نظام کو مضبوط بنایا تاکہ دشمن کی نقل و حرکت سے باخبر رہا جا سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوج کی تربیت اور تنظیم پر خصوصی توجہ دی اور جنگی حکمت عملی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشوروں کو اہمیت دی۔ اقدامی تدابیر کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہم مقامات پر حفاظتی دستے تعینات کیے اور کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاعی نظام نہ صرف موثر تھا بلکہ اخلاقی اصولوں پر بھی مبنی تھا۔


AIOU 0436 سیرت طیبہ Solved Assignment 4 Spring 2025


AIOU 0436 Assignment 4


سوال نمبر 1- رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ میں قائم کردہ اسلامی ریاست کی فکری بنیادوں پر روشنی ڈالنے کے بعد نبوی ریاست کے امور خارجہ پر جامع نوٹ تحریر کریں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ میں قائم کردہ اسلامی ریاست کی فکری بنیادیں توحید، رسالت اور آخرت کے عقائد پر استوار تھیں۔ ریاست کا مقصد اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو قائم کرنا، عدل و انصاف کو فروغ دینا اور اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرے کی تشکیل کرنا تھا۔ اس ریاست میں تمام شہریوں کو بلا تفریق مذہب و نسل یکساں حقوق حاصل تھے۔

نبوی ریاست کے امور خارجہ کا بنیادی مقصد دیگر ریاستوں کے ساتھ امن و سلامتی پر مبنی تعلقات قائم کرنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف قبائل اور ریاستوں کے ساتھ معاہدات کیے جن میں عدم جارحیت اور باہمی تعاون کے اصول طے کیے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سفیر دیگر ممالک میں بھیجے تاکہ اسلام کی دعوت پہنچائی جا سکے اور دوستانہ تعلقات استوار کیے جا سکیں۔ جنگ کی صورت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاقی اصولوں کی پاسداری کی اور غیر ضروری خونریزی سے اجتناب فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خارجہ پالیسی عدل، رواداری اور حکمت پر مبنی تھی۔


سوال نمبر 2- عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاہدات اور سفارتی کاری پر علیحدہ علیحدہ نوٹ تحریر کریں۔

عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مختلف قبائل اور ریاستوں کے ساتھ متعدد معاہدات کیے گئے۔ ان معاہدات کا مقصد امن و امان قائم کرنا، تجارتی تعلقات کو فروغ دینا اور مسلمانوں کو اپنی دعوت پھیلانے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا تھا۔ صلح حدیبیہ ایک اہم معاہدہ ہے جو کفار مکہ اور مسلمانوں کے درمیان طے پایا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں دس سال کے لیے جنگ بندی ہوئی اور مسلمانوں کو اپنی دعوت کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کا موقع ملا۔

سفارتی کاری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی کا اہم حصہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف ممالک کے سربراہان کو خطوط لکھے اور اپنے سفیر بھیجے تاکہ انہیں اسلام کی دعوت دی جا سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے دربار میں اپنا سفیر بھیجا جس کے نتیجے میں نجاشی اور بہت سے حبشیوں نے اسلام قبول کیا۔ سفارتی کوششوں کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لیے بین الاقوامی سطح پر ایک مقام پیدا کیا اور مختلف ریاستوں کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کیے۔


سوال نمبر 3- معاشی زندگی کا مفہوم، معاشی مسئلہ اور اس کا حل اور نبوی معاشی زندگی پر جامع نوٹ لکھیں۔

معاشی زندگی سے مراد انسان کی وہ تمام سرگرمیاں ہیں جو اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انجام دیتا ہے۔ اس میں روزگار کے حصول، تجارت، صنعت اور زراعت جیسی تمام کوششیں شامل ہیں۔ معاشی مسئلہ بنیادی طور پر محدود وسائل اور لامحدود خواہشات کے درمیان عدم توازن کا نام ہے۔ انسان کی خواہشات کبھی ختم نہیں ہوتیں جبکہ وسائل محدود ہوتے ہیں جس کی وجہ سے معاشی مسائل جنم لیتے ہیں۔

معاشی مسئلے کا حل اسلامی تعلیمات میں موجود ہے۔ اسلام میانہ روی اور کفایت شعاری کی تعلیم دیتا ہے۔ فضول خرچی سے منع کرتا ہے اور حلال رزق کمانے کی ترغیب دیتا ہے۔ زکوٰۃ اور صدقات کے نظام سے دولت کی منصفانہ تقسیم ہوتی ہے اور غریبوں اور محتاجوں کی مدد کی جاتی ہے۔ سود کو حرام قرار دیا گیا ہے جو معاشی استحصال کی ایک بڑی وجہ ہے۔

نبوی معاشی زندگی سادگی اور کفایت شعاری کا بہترین نمونہ تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ سادہ زندگی گزاری اور دنیاوی مال و متاع کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال رزق کمانے پر زور دیا اور محنت و مشقت کو پسند فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی سادہ زندگی گزارنے اور دوسروں کی مدد کرنے کی تلقین فرمائی۔ نبوی معاشی زندگی میں ضرورت مندوں کا خیال رکھنا اور دولت کی منصفانہ تقسیم ایک اہم اصول تھا۔


سوال نمبر 4- عصر حاضر میں سیرت کی ضرورت و اہمیت اور اس کی اشاعت کے ممکنات و رجحانات پر جامع نوٹ تحریر کریں۔

عصر حاضر میں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت و اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ آج دنیا کو جن مسائل کا سامنا ہے، ان کا حل سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ دہشت گردی، انتہا پسندی، معاشی ناانصافی اور اخلاقی انحطاط جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بہترین رہنمائی موجود ہے۔ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں عدل و انصاف، رواداری، صبر و تحمل اور انسانیت سے محبت کا درس دیتی ہے۔

سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اشاعت کے لیے عصر حاضر میں بہت سے امکانات موجود ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی اور میڈیا کے ذریعے سیرت کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ مختلف زبانوں میں سیرت کی کتب، مضامین، دستاویزی فلمیں اور ویب سائٹس تیار کی جا سکتی ہیں۔ تعلیمی نصاب میں سیرت کو شامل کرنا اور کانفرنسوں و سیمینارز کا انعقاد بھی سیرت کی اشاعت میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو مثبت انداز میں استعمال کرتے ہوئے سیرت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ عصر حاضر میں سیرت کی اشاعت کا رجحان بڑھ رہا ہے اور مختلف ادارے اور افراد اس سلسلے میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کوششوں کو مزید منظم اور موثر بنایا جائے۔


سوال نمبر 5- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق "ایچ جی ویلز" اور "مارگریٹ مارے" کے اقتباسات تحریر کریں۔

ایچ جی ویلز کے اقتباسات:

"میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زندگی کا مطالعہ کیا اور مجھے ان میں ایک حیرت انگیز شخصیت نظر آئی۔ وہ نہ صرف ایک عظیم پیغمبر تھے بلکہ ایک کامیاب سیاستدان، منتظم اور رہنما بھی تھے۔ ان کی سادگی، ایمانداری اور انصاف پسندی نے لوگوں کو بہت متاثر کیا۔"

"تاریخ میں بہت سے عظیم رہنما گزرے ہیں لیکن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا مقام ان سب سے بلند ہے۔ انہوں نے ایک منتشر اور جاہل قوم کو متحد کیا اور انہیں ایک ایسی تہذیب عطا کی جس نے دنیا پر صدیوں تک راج کیا۔"

مارگریٹ مارے کے اقتباسات:

"محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک اچھی اور بہترین شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی قوت ارادی، یقین محکم اور اخلاص نے انہیں اپنے مشن میں کامیاب کیا۔ انہوں نے ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی جس میں مساوات اور بھائی چارے کو فروغ دیا گیا۔"

"میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو تاریخ کے ان عظیم ترین افراد میں شمار کرتی ہوں جنہوں نے انسانیت کی تقدیر بدل دی۔ ان کی تعلیمات آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔"

No comments:

Post a Comment