علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی
(شعبہ اردو)
وارننگ
عزیز طلبہ! آپ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ:
1۔ اگر آپ اپنی امتحانی مشق میں کسی اور طالب علم کی تحریر میں سے مواد چوری کر کے لکھیں گے یا آپ اپنی امتحانی مشق کسی دوسرے طالب علم سے لکھوائیں گے تو آپ اپنے سرٹیفکیٹ یا ڈگری سے محروم ہو سکتے ہیں خواہ اس کا علم کسی بھی مرحلہ پر ہو جائے۔
2۔ دکسی دوسرے طالب علم سے ادھار لی گئی یا چوری کی گئی امتحانی مشق پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کی مواد کی چوری‘Plagiarism پالیسی کے مطابق سزادی جائے گی ۔
| مشقیں بھیجنے کا شیڈول | |||
|---|---|---|---|
| 6 کریڈٹ آورز کورس | آخری تاریخ | 3 کریڈٹ آورز کورس | آخری تاریخ |
| مشق نمبر 1 | 15-12-2025 | مشق نمبر 1 | 08-01-2026 |
| مشق نمبر 2 | 08-01-2026 | ||
| مشق نمبر 3 | 30-01-2026 | اسائنمنٹ 2 | 20-02-2026 |
| مشق نمبر 4 | 20-02-2026 | ||
| کورس: روزمرہ اردو (204) | سمسٹر: خزاں 2025 |
|---|---|
| سطح: میٹرک |
برائے مہربانی امتحانی مشقیں حل کرنے سے پہلے درج ذیل ہدایات کو غور سے پڑھیے۔ (ہدایات برائے طلبا میٹرک، ایف اے اور بی اے پروگرامز)
1۔ تمام سوالات کے نمبر مساوی ہیں البتہ ہر سوال کی نوعیت کے مطابق نمبر تقسیم ہوں گے۔
2۔ سوالات کو توجہ سے پڑھیے اور سوال کے تقاضے کے مطابق جواب تحریر کیجیے۔
3۔ مقررہ تاریخ کے بعد / تاخیر کی صورت میں امتحانی مشقیں اپنے متعلقہ ٹیوٹر کو بھیجنے کی صورت میں تمام تر ذمہ داری طالب علم پر ہوگی ۔
4۔ آپ کے تجزیاتی اور نظریاتی طرز تحریر کی قدر افزائی کی جائے گی۔
5۔ غیر متعلقہ بحث / معلومات اور کتب ، سٹڈی گائیڈ یا دیگر مطالعاتی مواد سے ہو بہو نقل کرنے سے اجتناب کیجیے۔
| کل نمبر: 100 | کامیابی کے نمبر: 40 |
|---|
1 امتحانی مشق نمبر
ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت کا کل کتنا عرصہ بنتا ہے؟ -I
حضرت مجددالف ثانی کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟-II
انگریز اپنے ساتھ کون سا نظام لائے؟ -III
اٹھارہویں صدی میں مسلمانوں کی سیاسی صورت حال کیا تھی؟ -IV
تحریک آزادی میں کانگریس کا کیا کردار رہا؟ -V
ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت کا کل کتنا عرصہ بنتا ہے؟ -I
ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کا آغاز 712ء میں محمد بن قاسم کی سندھ آمد سے ہوا۔ اس کے بعد مختلف مسلمان خاندان اور سلطنتیں برصغیر پر حکمران رہیں۔ ان میں غلام خاندان، خلجی، تغلق، لودھی اور سب سے بڑھ کر مغل سلطنت شامل ہے، جنہوں نے کئی صدیوں تک ہندوستان پر اپنی حکومت قائم رکھی۔ خاص طور پر مغل دور کو برصغیر کی تاریخ کا سنہرا دور کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں سیاسی استحکام، فن تعمیر، تعلیم اور تہذیب کو فروغ ملا۔ مسلمانوں کی حکومت مجموعی طور پر تقریباً ایک ہزار سال پر محیط رہی، جس نے برصغیر کی معاشرت، معیشت، عدلیہ اور ثقافت پر گہرے اثرات ڈالے۔ اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ طاقت کمزور پڑتی گئی، لیکن مسلمانوں کا اثر و رسوخ برصغیر کی تاریخ میں آج بھی نمایاں ہے۔ اس طویل عرصے کی حکومت نے ہندوستانی معاشرے کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔
حضرت مجددالف ثانی کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟ -II
حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ، جن کا اصل نام شیخ احمد سرہندی تھا، برصغیر کے ایک عظیم صوفی، مصلح اور عالم دین تھے۔ آپ کی پیدائش 1564ء میں سرہند میں ہوئی۔ آپ نے دین اسلام کی بقا اور اس کی اصل روح کو اجاگر کرنے کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اس دور میں مغل بادشاہ اکبر کے دربار میں مختلف باطل نظریات اور دینِ الٰہی جیسے فتنے ابھر رہے تھے، جن کے سبب اسلامی عقائد کمزور ہو رہے تھے۔ حضرت مجدد الف ثانی نے ان گمراہ کن نظریات کے خلاف بھرپور آواز بلند کی اور اسلام کی اصل تعلیمات کو عام کیا۔ آپ نے تصوف کو شریعت کے تابع کیا اور بدعات و خرافات کی اصلاح کی۔ ان کی کوششوں کی وجہ سے اسلامی معاشرہ دوبارہ اپنے اصل راستے پر آیا۔ اسی وجہ سے آپ کو "مجدد الف ثانی" یعنی دوسرے ہزار سال کا مجدد کہا جاتا ہے۔
انگریز اپنے ساتھ کون سا نظام لائے؟ -III
انگریز جب برصغیر میں آئے تو وہ اپنے ساتھ ایک منظم اور جدید نظام لائے جس نے یہاں کی پرانی روایتی طرز حکومت کو بدل کر رکھ دیا۔ سب سے پہلے انہوں نے مضبوط انتظامی ڈھانچہ قائم کیا، جس میں صوبے اور اضلاع بنا کر ان پر افسر مقرر کیے گئے۔ عدلیہ میں انہوں نے انگریزی قوانین متعارف کروائے، جن کے تحت انصاف کا نیا تصور سامنے آیا۔ تعلیم کے میدان میں انہوں نے مغربی طرز تعلیم کو فروغ دیا اور انگریزی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دیا۔ اس کے نتیجے میں ایک نیا طبقہ وجود میں آیا جو انگریزی تعلیم حاصل کر کے سرکاری نوکریوں میں شامل ہوا۔ انگریز ریلوے، ڈاک خانہ اور تار جیسے جدید مواصلاتی نظام بھی لے کر آئے جن سے پورا برصغیر آپس میں جڑ گیا۔ یہ تمام تبدیلیاں ہندوستان کی سماجی، معاشی اور ثقافتی زندگی پر دیرپا اثرات چھوڑ گئیں۔
اٹھارہویں صدی میں مسلمانوں کی سیاسی صورت حال کیا تھی؟ -IV
اٹھارہویں صدی مسلمانوں کے لیے زوال اور کمزوری کا دور تھا۔ مغل سلطنت جو صدیوں تک برصغیر میں طاقتور اور مستحکم حکومت کرتی رہی تھی، اب بکھراؤ کا شکار ہو چکی تھی۔ اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد کمزور اور نااہل حکمران تخت پر بیٹھے جن کے پاس انتظامی صلاحیت اور فوجی قوت نہ تھی۔ دربار میں سازشیں بڑھ گئیں اور صوبائی گورنر اپنی خودمختاری قائم کرنے لگے۔ مرہٹے، سکھ اور دیگر مقامی طاقتیں ابھر کر مسلمانوں کے مقابلے میں آ گئیں۔ دہلی میں بادشاہ صرف نام کا حکمران رہ گیا تھا جبکہ اصل طاقت صوبائی سرداروں اور بیرونی حملہ آوروں کے ہاتھ میں چلی گئی۔ اس دور میں مسلمانوں کی سیاسی گرفت ڈھیلی پڑ گئی، معیشت کمزور ہو گئی اور فوجی طاقت بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔ یہی کمزوری انگریزوں کو قدم جمانے کا موقع فراہم کرتی ہے جس کے بعد رفتہ رفتہ مسلمانوں کی سلطنت ختم ہو گئی۔
تحریک آزادی میں کانگریس کا کیا کردار رہا؟ -V
تحریک آزادی میں کانگریس کا کردار بہت نمایاں رہا۔ کانگریس کی بنیاد 1885 میں رکھی گئی اور ابتدا میں یہ ایک ایسی جماعت تھی جو انگریز حکومت سے اصلاحات اور حقوق مانگنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ کانگریس نے عوامی سطح پر انگریزوں کے خلاف آواز بلند کی اور جلسوں جلوسوں کے ذریعے آزادی کی جدوجہد کو آگے بڑھایا۔ مہاتما گاندھی کی قیادت میں کانگریس نے عدم تعاون تحریک، سول نافرمانی تحریک اور بھارت چھوڑو تحریک شروع کیں جنہوں نے عوام کو آزادی کے لیے بیدار کیا۔ تاہم مسلمانوں کے حوالے سے کانگریس کا رویہ متعصبانہ تھا۔ وہ مسلمانوں کی علیحدہ سیاسی شناخت اور حقوق کو تسلیم کرنے میں ناکام رہی۔ اسی وجہ سے مسلمانوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اپنی جدوجہد کو آگے بڑھایا۔ اس طرح کانگریس نے آزادی میں اہم کردار ادا کیا لیکن مسلمانوں کو ایک علیحدہ وطن کے لیے جدوجہد پر مجبور کیا۔
اعمال، الفاظ ، حاضرین ، صحابیات، امهات، اخلاق، اقوال، خصائل ، تجاویز، سہولیات
- اعمال ← عمل
- الفاظ ← لفظ
- حاضرین ← حاضر
- صحابیات ← صحابیہ
- امہات ← امّ
- اخلاق ← خلق
- اقوال ← قول
- خصائل ← خصلت
- تجاویز ← تجویز
- سہولیات ← سہولت
مکالمہ: امتحانی نظام
چھوٹا بھائی: بھائی جان! مجھے لگتا ہے کہ ہمارا امتحانی نظام بہت مشکل اور پرانا ہے۔ اس میں صرف رٹے بازی کو اہمیت دی جاتی ہے۔
بڑا بھائی: ہاں، تم بالکل درست کہہ رہے ہو۔ موجودہ نظام میں زیادہ زور یاد کرنے پر دیا جاتا ہے، نہ کہ سمجھنے اور عمل کرنے پر۔
چھوٹا بھائی: اگر ایسا ہے تو پھر اس نظام کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟
بڑا بھائی: اس کے لیے ضروری ہے کہ امتحانات میں نصاب کے ساتھ ساتھ عملی سوالات بھی شامل ہوں، تاکہ طلبہ اپنی تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کو استعمال کریں۔
چھوٹا بھائی: تو کیا اس سے طلبہ پر دباؤ کم ہو جائے گا؟
بڑا بھائی: جی ہاں، بالکل۔ جب طلبہ کو صرف یاد کرنے کی بجائے سمجھنے اور اپنے خیالات پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا تو وہ پڑھائی کو بوجھ نہیں بلکہ دلچسپی سمجھیں گے۔
چھوٹا بھائی: واقعی بھائی جان! اگر ایسا ہو تو تعلیم اور امتحان دونوں زیادہ مؤثر اور مفید ہو جائیں گے۔
وضاحت:
اس مکالمے میں موجودہ امتحانی نظام پر گفتگو کی گئی ہے۔ چھوٹا بھائی امتحانی نظام کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہے، جبکہ بڑا بھائی اس کے حل پیش کرتا ہے۔ اس مکالمے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ موجودہ امتحانی نظام زیادہ تر رٹے بازی پر انحصار کرتا ہے اور طلبہ کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں ناکام رہتا ہے۔ اگر اس نظام میں عملی اور فکری پہلو شامل کیے جائیں تو طلبہ بہتر طور پر سیکھ سکیں گے اور ان کی شخصیت اور سوچنے کی صلاحیت مزید مضبوط ہو گی۔ اس طرح امتحان تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی ایک وسیع پیمانے پر اٹھنے والا بغاوتی واقعہ تھا جو مئی ۱۸۵۷ میں میرٹ سے شروع ہوا اور شمالی اور وسطی ہندوستان کے کئی حصوں تک پھیل گیا۔ یہ واقعہ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف فوجی اور شہری سطح پر احتجاج اور جنگ کا مجموعہ تھا، جسے مختلف مورخین بغاوت، باغیانہ تحریک یا پہلی جنگِ آزادی کہتے ہیں۔
اس جنگ کا انسانی نقصان بہت بڑا اور دونوں طرف سے ظلم و بربریت پر مبنی تھا۔ اندازوں کے مطابق کئی ہزار برطانوی فوجی اور شہری مارے گئے، جبکہ بغاوتی سپاہیوں اور بہت بڑی تعداد میں شہریوں کی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ مجموعی انسانی لاگت کے اندازے مختلف ہیں، مگر یہ واضح ہے کہ جنگ اور اس کے بعد کی سرکشی و جوابی کارروائیوں میں بڑے پیمانے پر بے گھر ہونے، قحط اور تباہی ہوئی۔
کئی شہروں جیسے دہلی، لکھنؤ، کانپور اور اللہ آباد میں شدید جنگ ہوئی اور تباہی وسیع پیمانے پر ہوئی۔ کھیتوں اور دیہاتوں کو جلا دیا گیا، اور بغاوت کی حمایت کرنے والے علاقوں میں بری طرح کٹوتیاں اور جائیداد ضبط کی گئیں۔ اوڈھ خاص طور پر ایک ایسا علاقہ تھا جہاں بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان ہوا اور بعض اندازوں میں اوڈھ میں لاکھوں افراد کے متاثر ہونے کی باتیں بھی سامنے آئی ہیں۔ سِیج آف دہلی اور لکھنؤ میں ہونے والی لڑائیاں اس تباہی کی مثالیں ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کس قوم یا جماعت کو زیادہ نقصان ہوا۔ مختصر جواب یہ ہے کہ مجموعی طور پر ہندوستانی آبادی نے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا۔ برطانوی فہرست میں ہلاک و زخمی لوگ قابلِ ذکر تھے، مگر عددی اور سماجی اعتبار سے انڈین باشندوں، خاص طور پر شہری اور دیہی عوام کو زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا۔ یہ نقصان براہِ راست جنگی واقعات سے بھی آیا اور جنگ کے بعد ہونے والی سخت سرکشیوں اور سزاؤں سے بھی جن میں بے گھر کرنا، جائیداد ضبط کرنا اور قتل شامل تھے۔
خاص طور پر مسلمان اشرافیہ اور سابقہ مغل درباری حلقوں کو سیاسی اور معاشی سطح پر سخت نقصان پہنچا۔ چونکہ بغاوت کی قیادت میں بہت سے مسلمان سرکاری افسر اور سابقہ حاکم شامل تھے، اس لیے برطانوی انتقامی پالیسیاں ان کے حق میں سخت رہیں۔ برطانوی بیانیہ نے بعض جگہ مسلمانوں کو مرکزی ملزم کے طور پر پیش کیا جس کے طویل المدتی نتیجے میں مسلم سیاسی اور سماجی حیثیت میں کمی اور زمین و سرکاری مراعات کی ضبطی نے شامل ہے۔ اس نقطہ نظر کی تاریخی تشریح پر بحث جاری ہے مگر اس بات میں اتفاق ہے کہ بعض جماعتوں کو مخصوص اور دیرپا نقصان پہنچا۔
دیرپا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا دور ختم ہو کر براہِ راست برطانوی حکومت نے ہندوستان پر حکمرانی شروع کر دی، اور فوجی اور انتظامی پالیسیاں بدل گئیں۔ ان تبدیلیوں نے مقامی طاقت کے توازن کو تبدیل کیا اور کئی روایتی سماجی ڈھانچے متاثر ہوئے۔ اس طرح مجموعی طور پر ہندوستانی قوم نے نہ صرف فوری جانی نقصان برداشت کیا بلکہ طویل المدتی طور پر معاشی اور سیاسی پسماندگی کا بھی سامنا کیا۔
۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی میں اگرچہ دونوں اطراف کے لوگ زخمی اور مارے گئے، اور برطانوی شہریوں کو بھی سنگین نقصان ہوا، مگر جس طرف سب سے زیادہ کثیر الجہتی اور دیرپا نقصان نظر آتا ہے وہ ہندوستانی آبادی تھی۔ خاص طور پر دیہی عوام، بعض خطوں کے شہری اور مخصوص سماجی طبقات جیسا کہ سابقہ مغل اور ریاستی اشرافیہ نے بڑے پیمانے پر جانی، مالی اور سیاسی نقصان اٹھایا۔ اس جنگ کے اثرات نے برصغیر کی تاریخ، سماج اور حکمرانی کے طریقوں کو تبدیل کیا، اور اس کا اثر آنے والی دہائیوں میں واضح طور پر محسوس ہوا۔
مسلمان ایک بہتر نظامِ حیات لے کر برصغیر میں آئے – وضاحت
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مسلمان ایک بہتر نظامِ حیات لے کر برصغیر میں آئے تو اس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ وہ ایک نئے مذہب کے پیروکار تھے بلکہ وہ اپنے ساتھ ایک مکمل تہذیب، ثقافت اور سماجی اصول بھی لائے۔ اسلام کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے اور یہ صرف عبادات تک محدود نہیں بلکہ انسانی زندگی کے ہر پہلو کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس لیے جب مسلمان فاتحین، تاجر یا مبلغین کی صورت میں برصغیر میں داخل ہوئے تو ان کے ساتھ ایک ایسا معاشرتی اور اخلاقی ڈھانچہ بھی آیا جو اس خطے کی سابقہ روایات سے مختلف اور زیادہ منظم تھا۔
سب سے پہلی نمایاں خصوصیت عدل و انصاف کا نظام تھا۔ مسلمانوں نے برصغیر میں انصاف کو بنیادی اصول قرار دیا۔ عدلیہ کا تصور مضبوط کیا گیا اور کوشش کی گئی کہ ہر فرد کو اس کے حق تک رسائی ہو، خواہ وہ کسی بھی مذہب، ذات یا طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔ اسلامی حکمرانوں کے فیصلوں میں مساوات کا رنگ جھلکتا تھا، جس نے عام لوگوں کو ایک نئی سوچ دی۔
دوسری اہم چیز تعلیم اور علم کی ترویج تھی۔ مسلمان حکمرانوں نے مدارس اور تعلیمی ادارے قائم کیے جہاں دینی اور دنیاوی علوم یکجا پڑھائے جاتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب عربی، فارسی اور بعد میں اردو کو فروغ ملا۔ علمی کتابوں کے تراجم ہوئے، فلسفہ، ریاضی، فلکیات اور طب جیسے علوم عام ہوئے۔ اس علمی ماحول نے برصغیر کے ذہنی ارتقا میں گہرا اثر ڈالا۔
اسلامی تہذیب نے اخلاقی قدروں کو بھی اجاگر کیا۔ سچائی، ایمانداری، بھائی چارہ، برداشت اور رحم دلی کو معاشرتی زندگی میں اہمیت دی گئی۔ ان اصولوں نے ہندو، سکھ اور دیگر مذاہب کے لوگوں پر بھی اثر ڈالا اور معاشرتی ہم آہنگی کی نئی فضا پیدا ہوئی۔ مسلمان صوفیا نے محبت، امن اور قربانی کے پیغام سے دل جیتے اور عام لوگوں کو مذہب کی روحانیت سے روشناس کرایا۔
معاشی نظام کے حوالے سے مسلمانوں نے منڈیوں، صنعت و حرفت اور زراعت کے فروغ کے لیے اقدامات کیے۔ لین دین میں شریعت کے اصول اپنائے گئے جن میں سود کی ممانعت، دیانتداری اور شراکت داری کی حوصلہ افزائی شامل تھی۔ اس سے تجارت میں شفافیت آئی اور لوگوں کو بہتر روزگار کے مواقع میسر ہوئے۔
سیاسی سطح پر مسلمانوں نے مضبوط مرکزی حکومت قائم کی جس نے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا۔ سلطنت دہلی اور بعد ازاں مغلیہ سلطنت نے ایک ایسی ریاستی مشینری بنائی جس میں فوج، عدلیہ اور انتظامیہ کے باقاعدہ اصول وضع کیے گئے۔ یہ نظام برصغیر کے مختلف حصوں کو ایک مرکز کے تحت جوڑنے میں کامیاب ہوا۔
فنِ تعمیر، زبان و ادب اور آرٹ کے شعبوں میں بھی مسلمانوں نے انمول ورثہ چھوڑا۔ تاج محل، قطب مینار اور لال قلعہ جیسے شاہکار صرف عمارتیں نہیں بلکہ ایک مکمل تہذیبی سوچ کی علامت ہیں۔ اسی طرح اردو زبان نے مختلف مذاہب اور قوموں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بن کر ایک منفرد شناخت حاصل کی۔
مختصر یہ کہ مسلمان صرف ایک قوم کے طور پر نہیں بلکہ ایک مکمل نظامِ زندگی لے کر برصغیر میں آئے۔ ان کا نظام عدل، تعلیم، اخلاقیات، معیشت اور سیاست پر مبنی تھا جس نے اس خطے کی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی برصغیر کی تہذیب میں اسلامی تعلیمات کے اثرات گہرائی سے دیکھے جا سکتے ہیں۔
انگریز اپنے ساتھ جمہوری نظام لائے تھے جس میں معاملات اکثریت کے ووٹ سے طے ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں اکثریت ہندوؤں کی تھی اس کے معنی یہ تھے کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد مسلمانوں کو ہندوؤں کے رحم و کرم پر زندگی بسر کرنا پڑتی۔
انگریز جب برصغیر میں داخل ہوئے تو وہ اپنے ساتھ ایک نیا سیاسی نظام بھی لائے جسے جمہوری نظام کہا جاتا ہے۔ جمہوریت کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ ریاستی اور قومی معاملات اکثریت کی رائے سے طے کیے جائیں گے۔ یہ بظاہر ایک منصفانہ اور جدید نظام لگتا ہے کیونکہ اس میں ہر فرد کو رائے دینے کا حق دیا جاتا ہے، مگر برصغیر جیسے کثیر المذاہب اور کثیر القومی معاشرے میں اس نظام کے اثرات یکساں نہیں تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں ہندوؤں کی آبادی مسلمانوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تھی۔ اگر تمام فیصلے ووٹ کی اکثریت سے ہونے تھے تو اس کا سیدھا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کے سیاسی، سماجی اور معاشی مفادات ہمیشہ خطرے میں رہتے۔
اس جملے کے پس منظر کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ انگریزوں نے برصغیر پر حکومت کرتے ہوئے وہ پالیسیاں اپنائیں جن سے ایک طرف وہ اپنا اقتدار مستحکم کرتے رہے اور دوسری طرف مقامی قوموں میں تقسیم اور انتشار بڑھاتے رہے۔ جمہوری نظام کا نفاذ بھی انگریزوں کے اسی منصوبے کا حصہ تھا۔ انہوں نے بظاہر یہ تاثر دیا کہ وہ عوام کو اپنے معاملات چلانے کا حق دے رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ تھی کہ اس نظام سے اکثریت کو فوقیت ملتی اور اقلیت ہمیشہ محکوم رہتی۔ چونکہ ہندوؤں کی اکثریت تھی، اس لیے یہ واضح تھا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد ہندوستان کا نظام ہندو اکثریت کے مطابق ڈھلے گا اور مسلمان سیاسی طور پر کمزور ہو جائیں گے۔
مسلمانوں کے لیے یہ صورت حال نہایت تشویش ناک تھی۔ ایک طرف وہ کئی صدیوں تک ہندوستان کے حکمران رہ چکے تھے، دوسری طرف اب ان کے سامنے یہ خطرہ منڈلا رہا تھا کہ جمہوری نظام کے تحت وہ ایک دباؤ والی اقلیت میں بدل جائیں گے۔ ان کی زبان، تہذیب، مذہب اور ثقافت سب کچھ اکثریتی دباؤ کا شکار ہو سکتا تھا۔ اس لیے مسلمانوں نے اس نظام کو محض انصاف پر مبنی نظام کے بجائے ایک ایسے خطرے کے طور پر دیکھا جو ان کی سیاسی آزادی اور اجتماعی شناخت کو کمزور کر دے گا۔
انگریزوں کا مقصد بھی یہی تھا کہ وہ برصغیر سے جاتے وقت ایک ایسا نظام چھوڑ جائیں جس کے ذریعے اکثریتی طبقہ اقلیتی طبقے پر حاوی ہو جائے اور یوں دونوں کے درمیان اختلافات ختم نہ ہوں بلکہ مزید بڑھیں۔ یہ اختلافات اس قدر گہرے ہو گئے کہ مسلمان قیادت نے دو قومی نظریے کی بنیاد رکھی۔ مسلمانوں کو احساس ہوا کہ اگر وہ ہندو اکثریت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے گئے تو ان کے لیے اپنی جداگانہ حیثیت برقرار رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ اس سوچ نے آگے چل کر تحریکِ پاکستان کو جنم دیا۔
اس پیراگراف کے اندر موجود "ہندوؤں کے رحم و کرم پر زندگی بسر کرنا" دراصل اسی خدشے کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی اپنی مرضی یا خواہش کے مطابق کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا تھا۔ ان کی تعلیم، روزگار، کاروبار اور سیاسی نمائندگی سب کچھ اکثریت کے فیصلوں کے تابع ہوتا۔ ہندو اکثریت جس قانون کو منظور کرتی، وہی نافذ ہوتا اور مسلمانوں کے پاس اسے روکنے یا اس میں تبدیلی لانے کی طاقت نہ ہوتی۔ یہ صورتحال مسلمانوں کے مستقبل کے لیے بہت بڑا خطرہ تھی۔
مزید برآں، ہندو اکثریت کے اندر مسلمانوں کے خلاف تعصبات بھی پائے جاتے تھے۔ یہ بات مسلمانوں کے لیے مزید پریشانی کا سبب تھی۔ انگریزوں کی موجودگی میں یہ اختلافات کسی حد تک دبے رہے، لیکن جیسے جیسے آزادی کی تحریک آگے بڑھی اور برطانوی راج کمزور ہوا، مسلمانوں کو یہ حقیقت کھل کر نظر آنے لگی کہ آزادی کے بعد ان کے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھ جائیں گے۔ یہی وہ احساس تھا جس نے محمد علی جناح اور دیگر مسلم رہنماؤں کو مجبور کیا کہ وہ مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ کریں۔
اس پیراگراف کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ یہ ہمیں برصغیر کے سیاسی تناظر کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ جمہوریت بلاشبہ ایک بہترین نظامِ حکومت سمجھا جاتا ہے، لیکن ہر خطہ اپنی مخصوص سماجی و تہذیبی حقیقت رکھتا ہے۔ ہندوستان کی حقیقت یہ تھی کہ یہاں مختلف قومیں اور مذاہب آباد تھے اور ان کے درمیان گہرے اختلافات موجود تھے۔ ایسی صورت میں ایک ہی جمہوری نظام سب کے لیے فائدہ مند نہیں ہو سکتا تھا۔ مسلمانوں کے خدشات بالکل درست ثابت ہوئے کیونکہ آزادی کے بعد بھارت میں مسلمانوں کو وہ آزادی اور تحفظ نہیں ملا جس کی وہ توقع رکھتے تھے۔ اس کے برعکس پاکستان بننے کے بعد مسلمانوں کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع ملا۔
یہ پیراگراف دراصل اس تاریخی حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ انگریزوں کے لائے ہوئے جمہوری نظام نے بظاہر تو سب کو رائے کا حق دیا لیکن حقیقت میں اس نے اقلیتوں کو اکثریت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ مسلمانوں نے اس خطرے کو بروقت پہچانا اور اپنی بقا اور آزادی کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا۔ یہی مطالبہ آگے چل کر پاکستان کی شکل میں حقیقت بن گیا۔
2 امتحانی مشق نمبر
مکالمہ لکھنے کے اصول
مکالمہ ادب کی ایک نہایت اہم اور دلچسپ صنف ہے جس میں دو یا دو سے زیادہ افراد کی گفتگو کو بیان کیا جاتا ہے۔ یہ انداز قاری کو حقیقت کے قریب لے آتا ہے اور پڑھنے والا ایسا محسوس کرتا ہے جیسے وہ خود اس ماحول کا حصہ ہو۔ مکالمہ لکھتے وقت سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ موضوع بالکل واضح اور متعین ہو تاکہ گفتگو بے ربط اور غیر ضروری نہ لگے۔
مکالمہ حقیقت کے قریب ہونا چاہیے اور کرداروں کی زبان ان کی شخصیت کے مطابق ہونی چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر کردار ایک بزرگ ہے تو اس کی زبان میں سنجیدگی اور وقار جھلکنا چاہیے، جبکہ نوجوان کا انداز سادہ اور جوش سے بھرپور ہونا چاہیے۔ اس طرح قاری آسانی سے کرداروں کو پہچان سکتا ہے۔
مکالمہ لکھتے وقت جملے سادہ، مختصر اور رواں ہوں تاکہ قاری کو سمجھنے میں مشکل نہ ہو۔ ہر کردار کا جملہ الگ لائن یا پیراگراف میں لکھا جائے تاکہ گفتگو ترتیب وار اور واضح دکھائی دے۔ سوال و جواب کے ذریعے مکالمہ زیادہ مؤثر اور دلچسپ بنایا جا سکتا ہے۔
اخلاقیات کا پہلو مکالمے میں ہمیشہ مدنظر رکھا جانا چاہیے۔ زبان شائستہ ہو اور ایسا کچھ نہ لکھا جائے جو دل آزاری کا سبب بنے۔ مکالمے کا مقصد صرف تفریح نہیں بلکہ قاری کو سوچنے پر مجبور کرنا اور اسے کسی نہ کسی تعلیمی یا اخلاقی پہلو سے آگاہ کرنا بھی ہوتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ مکالمہ اگر اصولوں کے مطابق لکھا جائے تو یہ نہ صرف ادب کو جاذب نظر بناتا ہے بلکہ معاشرتی اور اخلاقی قدروں کو اجاگر کرنے کا بہترین ذریعہ بھی ثابت ہوتا ہے۔
مکالمہ: ملکی حالات پر دو بزرگوں کے درمیان گفتگو
بزرگ اول: السلام علیکم بھائی، کافی دن بعد ملاقات ہو رہی ہے۔ کیسی طبیعت ہے؟
بزرگ دوم: وعلیکم السلام، اللہ کا شکر ہے۔ مگر دل کچھ بھاری ہے۔ یہ ملک کے حالات دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہوں۔
بزرگ اول: جی بالکل، یہی حال میرا بھی ہے۔ مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ غریب آدمی دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے پوری کرتا ہے۔ ہر چیز کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔
بزرگ دوم: آپ درست کہہ رہے ہیں۔ مہنگائی نے تو سب کی کمر توڑ دی ہے۔ لیکن صرف مہنگائی ہی نہیں، بے روزگاری بھی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ نوجوان ڈگریاں لے کر پھر رہے ہیں مگر انہیں کوئی روزگار نہیں ملتا۔ ایسے میں معاشرے میں بے چینی اور مایوسی پھیلنا فطری ہے۔
بزرگ اول: جی ہاں، جب نوجوان ہی مایوس ہوں گے تو ملک کا مستقبل کیسا روشن ہوگا؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران عوام کے مسائل پر توجہ نہیں دیتے۔ ان کے فیصلے وقتی مفادات پر مبنی ہوتے ہیں، قومی مفاد کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں۔
بزرگ دوم: اور اس کے ساتھ ساتھ بدعنوانی نے بھی ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔ جب تک اداروں میں انصاف اور دیانتداری نہیں آئے گی، حالات میں بہتری ممکن ہی نہیں۔ عوام اپنے حقوق سے محروم رہیں گے اور وسائل چند ہاتھوں میں سمٹ جائیں گے۔
بزرگ اول: میں سمجھتا ہوں کہ اصل تبدیلی عوامی شعور سے آتی ہے۔ جب تک لوگ اپنے ووٹ کا صحیح استعمال نہیں کریں گے اور بہتر نمائندے نہیں چنیں گے، حالات کبھی نہیں بدلیں گے۔
بزرگ دوم: بالکل صحیح فرمایا آپ نے۔ عوام اگر تعلیم کو اہمیت دیں اور اپنے بچوں کو علم کے زیور سے آراستہ کریں تو یہ نسل مستقبل میں بہتر فیصلے کرے گی۔ پڑھی لکھی قوم ہی اچھے رہنما چن سکتی ہے۔
بزرگ اول: مجھے تو لگتا ہے کہ ہمیں اپنی سوچ کو بھی بدلنا ہوگا۔ صرف حکومت پر تنقید کرنے سے بات نہیں بنے گی۔ ہر شخص کو اپنی سطح پر کوشش کرنی چاہیے، چاہے وہ ایمانداری سے اپنا کام کرنا ہو یا دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک۔
بزرگ دوم: آپ نے بالکل سچ کہا۔ معاشرہ چھوٹی چھوٹی کوششوں سے بدلتا ہے۔ اگر ہم سب اپنی اپنی ذمہ داری پوری کریں تو حالات خود بہتر ہو جائیں گے۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں اور اتحاد قائم کریں۔
بزرگ اول: اللہ کرے کہ ہمارے ملک کو ایماندار قیادت ملے اور عوام بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ تبھی ترقی اور خوشحالی کا سفر ممکن ہوگا۔
بزرگ دوم: آمین۔ دعا ہی کر سکتے ہیں کہ آنے والا وقت ہمارے لیے بہتر ہو۔
مکالمہ: غیر ملکی سیاح اور مقامی دکاندار
سیاح: السلام علیکم، کیسے ہیں آپ؟
دکاندار: وعلیکم السلام، الحمد للہ ٹھیک ہوں جناب، آپ کیسے ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟
سیاح: میں یورپ سے آیا ہوں۔ یہ میرا پاکستان کا پہلا دورہ ہے اور میں یہاں کی ثقافت اور روایتی چیزیں دیکھنے آیا ہوں۔
دکاندار: خوش آمدید، آپ ہمارے مہمان ہیں۔ یہ بازار اپنے روایتی ہنر اور دستکاری کے لیے مشہور ہے۔ آپ کو کون سی چیز پسند آئی؟
سیاح: مجھے یہ ہاتھ کی بنی ہوئی شال بہت خوبصورت لگ رہی ہے۔ کیا آپ مجھے اس کی قیمت بتا سکتے ہیں؟
دکاندار: جی ضرور، یہ شال مقامی کاریگروں نے محنت سے بنائی ہے اور اس کی قیمت دو ہزار روپے ہے۔
سیاح: دو ہزار روپے، یہ رقم مجھے تھوڑی زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔ کیا آپ رعایت کر سکتے ہیں؟
دکاندار: یہ ہاتھ کا کام ہے اور ہر دھاگہ خیال سے بُنا گیا ہے۔ پھر بھی چونکہ آپ مہمان ہیں تو میں آپ کے لیے پندرہ سو روپے کر دوں گا۔
سیاح: آپ کی سخاوت کا شکریہ۔ براہ کرم مجھے اس شال کے رنگوں اور ڈیزائن کی تاریخی یا ثقافتی اہمیت بتائیں۔
دکاندار: بالکل، یہ سرخ رنگ بہادری اور احترام کی علامت ہے اور سبز رنگ خوشحالی اور امید کی نمائندگی کرتا ہے۔ ہمارے ہاں مخصوص نمونہ جات اور رنگ روایتی تقریبات میں مخصوص معنی رکھتے ہیں۔
سیاح: یہ جان کر بہت اچھا لگا۔ کیا یہ شال روزمرہ میں پہنی جاتی ہے یا خاص مواقع کے لیے مخصوص ہے؟
دکاندار: عموماً یہ خاص مواقع مثلاً شادیوں اور تہذیبی میل جول میں پہنی جاتی ہے۔ دیہی علاقوں کی خواتین اسے فخر سے لیتی ہیں اور یہ ہماری ثقافتی شناخت کا حصہ ہے۔
سیاح: میں چاہتا ہوں کہ یہ شال اپنے ساتھ اپنے ملک لے جاؤں تاکہ اپنے دوستوں کو دکھا سکوں کہ پاکستان کی ثقافت کتنی دلکش ہے۔
دکاندار: یہ خوشی کی بات ہے۔ آپ خریدیں اور ساتھ میں یہ چھوٹی چوڑی ہمارا تحفہ قبول کیجیے۔ یہ ہمارے ہنر مندوں کی ایک اور نمائش ہے۔
سیاح: واقعی شکریہ، آپ کی مہمان نوازی نے میرا دل جیت لیا ہے۔ مجھے یہاں کا ماحول اور لوگ بہت پسند آئے۔
دکاندار: ہمارا فخر ہے کہ آپ یہاں خوش ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ آپ کا سفر خوشگوار رہے گا اور آپ اپنی یادیں اپنے ملک میں بانٹیں گے۔
سیاح: ان شاء اللہ، میں سب کو بتاؤں گا کہ پاکستان کے لوگ کتنے مہمان نواز اور خلوص سے پیش آنے والے ہیں۔
دکاندار: اللہ کرے آپ کا ہر سفر اچھا گزرے۔ ہمارا دروازہ آپ کے لیے ہمیشہ کھلا ہے۔
مرسل:
علی حسن
گھر نمبر 24، گلشنِ اقبال بلاک 7
کراچی، پاکستان
مورخہ: 25 ستمبر 2025
مخاطب:
محترمہ ممانی جان
گھر نمبر 18، نارتھ ناظم آباد بلاک H
کراچی، پاکستان
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گی اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے صحت مند ہوں گی۔ آپ کے جانے کے بعد سے گھر کچھ سنسان سا لگ رہا ہے۔ آپ کی محبت بھری باتیں اور خیال رکھنے کا انداز سب کو بہت یاد آ رہا ہے۔ امی جان اکثر ذکر کرتی ہیں کہ ممانی جان کے ساتھ وقت کتنا اچھا گزرا۔
چھوٹے بہن بھائی بھی بار بار پوچھتے ہیں کہ ممانی جان کب واپس آئیں گی۔ خاص طور پر زین تو آپ کے ساتھ کھیلنے کو ترس رہا ہے۔ ابو جان بھی آپ کے اخلاق اور مہمان نوازی کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔
ممانی جان! آپ کی واپسی کے بعد گھر کا ماحول بہت بدل گیا ہے۔ کھانے کی میز پر آپ کی کمی صاف محسوس ہوتی ہے۔ امید ہے آپ نے اپنی منزل تک بخیریت سفر کیا ہوگا اور وہاں بھی سب لوگ آپ کو خوشی خوشی ملے ہوں گے۔
دعا ہے کہ اللہ آپ کو صحت، خوشی اور سکونِ قلب عطا کرے۔ ہم سب جلد ہی دوبارہ آپ کی زیارت کے منتظر ہیں۔ براہ کرم چچا جان اور کزنز کو بھی میرا سلام اور دعا ضرور پہنچا دیجیے گا۔
آپ کا بھانجا
علی حسن
مکالمہ: ملک کے شادی بیاہ کی رسم و رواج پر دو خواتین کی گفتگو
خاتون اول: السلام علیکم بہن! کل قریب کے محلے میں شادی تھی، میں وہاں گئی تھی۔ سوچا کہ آپ سے بھی شادی بیاہ کی رسومات پر بات کی جائے۔
خاتون دوم: وعلیکم السلام! جی بالکل، ہمارے معاشرے میں شادیاں بڑی رنگا رنگ ہوتی ہیں۔ آپ کو وہاں کیا کچھ دیکھنے کو ملا؟
خاتون اول: وہاں روایتی انداز میں سب رسومات ہوئیں۔ مہندی، مایوں، بارات اور ولیمہ سب الگ الگ دنوں میں منعقد کیے گئے۔ عورتیں گانے گا رہی تھیں، نوجوان ڈھولک پر رقص کر رہے تھے۔ خوشی کا ماحول تھا مگر کچھ رسومات غیر ضروری بھی لگیں۔
خاتون دوم: آپ نے بالکل درست کہا۔ ہمارے ہاں شادی بیاہ میں کئی اچھی روایات ہیں جیسے کہ مہمان نوازی اور مل بیٹھنے کا موقع ملنا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ فضول خرچی بھی بہت ہو جاتی ہے۔ کئی گھرانے قرض لے کر شادی کی تقریبات کرتے ہیں۔
خاتون اول: ہاں، یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اصل میں شادی ایک سادہ مذہبی اور سماجی تقریب ہے۔ مگر ہم نے اسے دکھاوا اور مقابلہ بازی کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ کپڑوں، زیورات اور کھانے پر اتنا خرچ ہوتا ہے کہ عام آدمی گھبرا جاتا ہے۔
خاتون دوم: بالکل، اسلام نے تو سادگی پر زور دیا ہے۔ نکاح ایک نہایت سادہ عمل ہے مگر ہم نے خودساختہ رسومات اس پر مسلط کر دی ہیں۔ خاص طور پر جہیز کی رسم نے کئی لڑکیوں کے گھر بسانے میں رکاوٹ پیدا کر دی ہے۔
خاتون اول: جی ہاں، جہیز تو ہمارے معاشرے کا ایک ناسور بن چکا ہے۔ والدین اپنی بیٹی کی شادی کے لیے برسوں سے جہیز اکٹھا کرتے ہیں۔ اس دوران لڑکیاں عمر کی حد پار کر جاتی ہیں اور شادی میں تاخیر ہوتی ہے۔
خاتون دوم: اور یہی وجہ ہے کہ کئی گھروں میں جھگڑے اور پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان رسومات کے خلاف آواز اٹھائیں۔ سادگی سے نکاح کریں اور کھانے کو بھی ضیافت کے بجائے ضرورت کے مطابق رکھیں۔
خاتون اول: آپ کی بات بالکل درست ہے۔ سادگی میں ہی اصل خوشی ہے۔ اگر ہم شادیوں کو سادہ رکھیں تو سب گھرانے سکون سے بیٹیوں کی شادیاں کر سکیں گے اور غیر ضروری بوجھ سے بھی بچ جائیں گے۔
خاتون دوم: بالکل۔ خوشی دلوں میں ہونی چاہیے، فضول اخراجات میں نہیں۔ اگر ہم اپنی آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیں کہ دکھاوا چھوڑ کر اصل مقصد یعنی نکاح اور خاندان کو جوڑنے پر توجہ دیں تو معاشرہ بہتر ہو جائے گا۔
خاتون اول: اللہ کرے کہ لوگ اس بات کو سمجھیں اور شادی بیاہ کی تقاریب کو سادہ اور بامقصد بنائیں۔ یہی معاشرے کی بھلائی اور دین کی تعلیمات کے مطابق ہے۔
خاتون دوم: آمین۔ دعا ہے کہ ہمارے معاشرے سے یہ فضول رسومات ختم ہوں اور ہر گھر خوشیوں سے آباد ہو۔
فیض یاب، نشو و نما، تگ ودو، بقائے حیات، بیش بہا
فیض یاب: استاد کی رہنمائی سے طلبہ علم کے انمول خزانے سے فیض یاب ہوئے۔
نشو و نما: پودوں کی صحیح نشو و نما کے لیے پانی اور روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔
تنگ و دو: غربت نے اس خاندان کو تنگ و دو کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا۔
بقائے حیات: پانی کو بقائے حیات کے لیے بنیادی عنصر کہا جاتا ہے۔
بیش بہا: ماں باپ کی دعائیں اولاد کے لیے بیش بہا سرمایہ ہیں۔
بخدمت جناب ہیڈ ماسٹر صاحب
گورنمنٹ ہائی اسکول
کراچی، پاکستان
جناب عالی،
گزارش ہے کہ میری بہن کی شادی مورخہ 2 اکتوبر 2025 کو طے پائی ہے۔ شادی کے انتظامات اور گھریلو مصروفیات کی وجہ سے میں اسکول آنے سے معذور ہوں۔ لہٰذا آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ مجھے مورخہ 30 ستمبر سے 4 اکتوبر 2025 تک پانچ دن کی رخصت عنایت فرمائی جائے۔
آپ کی مہربانی ہوگی۔
خاکسار
طالب علم
احمد رضا
کلاس دہم
رول نمبر: 152
3 امتحانی مشق نمبر
محترم احمد خان صاحب
السلام علیکم
امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ بڑے دکھ اور افسوس کے ساتھ اطلاع دینا پڑ رہی ہے کہ ہمارے عزیز محمد یاسر خان ایک سڑک حادثے کا شکار ہو گئے۔ یہ واقعہ 25 ستمبر 2025 کو کراچی، پاکستان میں پیش آیا۔
اللہ کا شکر ہے کہ ان کی جان کو کوئی خطرہ نہیں، البتہ ان کے بازو اور ٹانگ پر چوٹیں آئی ہیں۔ اس وقت وہ جناح اسپتال کراچی میں زیرِ علاج ہیں۔ ڈاکٹر حضرات کے مطابق مکمل صحت یابی میں کچھ وقت لگے گا لیکن امید ہے کہ وہ جلد صحت مند ہو جائیں گے۔
ہم سب دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحتِ کاملہ اور عاجلہ عطا فرمائے۔ جیسے ہی مزید معلومات ملیں گی، آپ کو آگاہ کیا جائے گا۔
آپ کا خیر خواہ
عبدالرحمٰن خان
خط محض پیغام رسانی کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک ایسا آئینہ ہے جو لکھنے والے کی شخصیت، اخلاق اور تہذیب کو ظاہر کرتا ہے۔ خط میں القاب و آداب کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کہ یہ خط کو شائستہ، باوقار اور مؤثر بناتے ہیں۔ جب کوئی شخص خط لکھتا ہے تو اس کے الفاظ اور اندازِ تحریر قاری کے دل پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔
احترام کا اظہار
خط میں "محترم"، "معزز" یا "قابلِ صد احترام" جیسے القاب کا استعمال مخاطب کو عزت دینے کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہ الفاظ تعلقات کو مزید مضبوط کرتے ہیں اور قاری کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ لکھنے والا اس کے مرتبے کو تسلیم کرتا ہے۔
اخلاقی اور تہذیبی پہچان
خط کی ابتدا میں "السلام علیکم" یا دعا کے کلمات اسلامی اور مشرقی تہذیب کا اہم جزو ہیں۔ یہ الفاظ خط کو روحانی اور اخلاقی رنگ بخشتے ہیں۔
مناسب ماحول پیدا کرنا
القاب و آداب خط کو رسمی یا غیر رسمی بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ سرکاری خط میں باضابطہ القاب اور گھریلو خط میں محبت بھرے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہی فرق خط کے لہجے اور اثر کو واضح کرتا ہے۔
کسی خط کی روشنی میں وضاحت
اگر کسی عزیز کو حادثے کی اطلاع دینے کے لیے خط لکھا جائے اور اس میں ابتداء "محترم جناب" جیسے القاب سے ہو، درمیان میں دعاؤں اور خیریت کا ذکر ہو اور آخر میں "والسلام" یا "آپ کا خیر خواہ" درج کیا جائے، تو وہ خط زیادہ باوقار، مؤثر اور دل کو چھو لینے والا بن جاتا ہے۔
خط میں القاب و آداب کی اہمیت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ الفاظ نہ صرف پیغام کو سنوار دیتے ہیں بلکہ تعلقات میں احترام، قربت اور محبت بھی پیدا کرتے ہیں۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ خط کی اصل خوبصورتی انہی القاب و آداب میں پوشیدہ ہے۔
عرضی نویسی
عرضی نویسی ایک رسمی اور منظم طریقۂ کار ہے جس کے ذریعے کوئی فرد یا ادارہ کسی متعلقہ حکام یا ادارے سے درخواست، گزارش یا شکایت درج کرواتا ہے۔ عرضی کا مقصد محض بات کرنا نہیں بلکہ اپنی بات کو تحریری، واضح اور قابلِ قبول شکل میں پہنچانا ہوتا ہے تاکہ مربوط ردعمل یا قانونی کارروائی ممکن ہو سکے۔
تعریف
عرضی نویسی وہ عمل ہے جس میں کسی مطلوبہ نتیجے کے لیے باقاعدہ الفاظ اور طرزِ تحریر اختیار کر کے ایک درخواست تحریر کی جاتی ہے۔ یہ درخواست عموماً کسی افسر، محکمہ، عدالت یا ادارے کے نام ہوتی ہے اور اس میں مسئلہ، پس منظر اور مطلوبہ حل واضح کیا جاتا ہے۔
مقاصد
عرضی لکھنے کے مقاصد میں شامل ہیں اجازت یا منظوری حاصل کرنا، کسی مسئلے کی نشاندہی کرنا، شکایت درج کروانا، امداد یا معاوضہ مانگنا، سرکاری ریکارڈ میں تبدیلی کی درخواست کرنا اور عدالتی یا انتظامی کارروائی شروع کروانا۔ ہر عرضی کا بنیادی ہدف قاری کو قائل کرنا اور مناسب کاروائی کروانا ہوتا ہے۔
اقسام
سرکاری عرضی، تعلیمی ادارے کے سامنے درخواست، عدالتی عرضی، روزگار کے حوالے سے درخواست، بینک یا افسران کے نام درخواست اور ذاتی نوعیت کی عرضیاں عام اقسام ہیں۔ عدالت کیلئے عرضی لکھنے کے مخصوص قوانین اور فارمیٹس ہوتے ہیں جبکہ معمولی سرکاری یا ذاتی عرضیوں میں زیادہ لچک ہوتی ہے۔
بنیادی اجزاء
بنام یا مخاطب کا حصہ، تاریخ اور مقام، موضوع یا عنوان، مناسب سلام، تمہیدی بیان، تفصیلی حقائق اور پس منظر، واضح درخواست یا استدعا، منسلک دستاویزات کا ذکر اور اختتامی دستخط یہ وہ بنیادی حصے ہیں جو ہر مناسب عرضی میں ہونے چاہئیں۔ ہر حصہ مختصر، مربوط اور باوقار زبان میں لکھا جانا چاہیے۔
نگارش کا اسلوب اور طریقۂ کار
الفاظ سادہ اور موزوں رکھیں۔ ہر نکتہ الگ پیراگراف میں لکھیں تاکہ قاری کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ حقائق میں تاریخیں، مقامات اور متعلقہ افراد کے نام واضح طور پر درج کریں۔ نرم اور باعزت انداز اختیار کریں اور ایسی زبان سے احتراز کریں جو تند یا الزام تراش ہو۔ استدعا واضح انداز میں تحریر کریں، مثلاً لکھیں کہ "بارگاہ سے گزارش ہے کہ…"، یا "درخواست ہے کہ…"
قانونی اور انتظامی پہلو
عدالتی یا سرکاری معاملات میں مقررہ فارمیٹ، درخواست فیس، نوٹریفکیشن یا امضاکار کے بارے میں معلومات ضروری ہوتی ہیں۔ منسلک دستاویزات کی نقول ساتھ لگائیں اور ارسال کا طریقہ ریکارڈ کریں جیسے رِجسٹرڈ ڈاک یا آن لائن سبمیشن۔ رسید یا تحریری ثبوت محفوظ رکھیں تاکہ بعد میں پیروی ممکن ہو۔
عام غلطیاں جن سے بچیں
غیرضروری لمبا احوال لکھ دینا، غیر واضح استدعا، ثبوت یا دستاویزات کا نہ لگانا، مخاطب کے نام یا عہدے کی غلطی اور بے ادبی طرزِ تحریر یہ عام خامیاں ہیں جو عرضی کی منظوری میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ لہٰذا مختصر، ٹھیک اور باوقار رہیں۔
خلاصہ
عرضی نویسی ایک مؤثر وسیلہ ہے جو آپ کے مسئلے کو رسمی انداز میں ادارہ تک پہنچاتا ہے۔ شائستگی، درست معلومات اور مناسب دستاویزات اس کی کامیابی کی کنجی ہیں۔
محترم آفیسر صاحب
محکمہ خوراک
کراچی، پاکستان
موضوع: گندم کی خریداری میں گھپلوں کے بارے میں درخواست
محترم جناب
گزارش ہے کہ حالیہ دنوں گندم کی خریداری کے عمل میں سنگین گھپلوں اور بدعنوانیوں کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ دیہات اور قصبات میں اصل کسانوں کو ان کا جائز معاوضہ نہیں دیا جا رہا جبکہ بلیک مارکیٹ اور ذخیرہ اندوز عناصر منافع کما رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف کسانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ عام عوام بھی مہنگائی اور قلت کا شکار ہو رہے ہیں۔
میں بحیثیت ایک باشعور شہری آپ کی توجہ اس سنگین مسئلے کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں اور گزارش کرتا ہوں کہ اس معاملے کی فوری اور شفاف تحقیقات کروائی جائیں۔ ذمہ دار افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور کسانوں کو براہِ راست فائدہ پہنچانے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھائے جائیں۔
دعا ہے کہ آپ اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کر کے کسانوں اور عوام کو ریلیف فراہم کریں۔
نام: محمد احسن خان
پتہ: مکان نمبر 45، گلشنِ اقبال بلاک 13، کراچی، پاکستان
تاریخ: 26 ستمبر 2025
مقوله، آسائش، پاداش، متعدی مرض، متوازن غذا، ضامن، نکھار، بل بوتے، احتمال، سرعت
1. اکثر لوگ یہ مقولہ دہراتے ہیں کہ "وقت قیمتی ہے"۔
2. بجلی اور انٹرنیٹ آج کے دور کی سب سے بڑی آسائش ہیں۔
3. محنت کی پاداش ہمیشہ کامیابی کی صورت میں ملتی ہے۔
4. ڈینگی ایک متعدی مرض ہے جو مچھروں کے ذریعے پھیلتا ہے۔
5. صحت مند رہنے کے لیے متوازن غذا کا استعمال ضروری ہے۔
6. ایمان داری کامیابی کی ضامن ہے۔
7. پھولوں کی خوشبو نے باغ کی خوبصورتی میں نکھار پیدا کر دیا۔
8. اس نے اپنی محنت کے بل بوتے پر اعلیٰ مقام حاصل کیا۔
9. کل بارش ہونے کا قوی احتمال ہے۔
10. انٹرنیٹ کی زیادہ سرعت نے کام کرنا آسان بنا دیا ہے۔
- خط کس چیز کا بدل ہے؟
- کیا خط میں مقام اور تاریخ لکھنا ضروری ہے؟
- خط بات چیت کی زبان میں لکھنا چاہیے یا مشکل زبان میں؟
- سالگرہ یا شادی کا دعوت نامہ خط کی قسم ہے یا درخواست؟
- کس طرح کے خط میں محبت اور خلوص کا اظہار ضروری ہے؟
1 ۔ خط کس چیز کا بدل ہے؟
خط دراصل براہِ راست ملاقات یا گفتگو کا بدل ہے۔ جب لوگ ایک دوسرے سے دور ہوں یا ملاقات ممکن نہ ہو تو اپنے جذبات، خیالات اور ضروری باتیں دوسروں تک پہنچانے کے لیے خط کا سہارا لیتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں خط کا شمار قدیم ترین ابلاغی ذرائع میں ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم میں جب فون، انٹرنیٹ یا دیگر جدید سہولتیں موجود نہ تھیں، لوگ اپنی خوشیاں، غم، خبریں اور ضروری ہدایات خطوط کے ذریعے ہی دوسروں تک پہنچاتے تھے۔ خط ایک ایسا وسیلہ ہے جس میں لکھنے والا اپنی بات کو ترتیب اور سکون کے ساتھ بیان کرتا ہے اور قاری اس کو غور سے پڑھ کر سمجھتا ہے۔
خط صرف ایک پیغام نہیں ہوتا بلکہ تعلقات کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ یہ دو دلوں یا دو خاندانوں کے درمیان رشتہ مضبوط بنانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ کبھی خوشی کے مواقع پر خط لکھا جاتا ہے جیسے مبارکباد یا دعوت نامے کے لیے، اور کبھی دکھ یا غم میں جیسے تعزیت کے خطوط۔ اس طرح خط جذبات اور خیالات کے اظہار کا مؤثر ذریعہ ہے۔ جدید دور میں اگرچہ موبائل اور سوشل میڈیا نے خط کی جگہ لے لی ہے، لیکن خط کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ آج بھی سرکاری، تعلیمی اور عدالتی امور میں خط ہی ایک معتبر اور باقاعدہ ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ خط انسان کی غیر موجودگی میں اس کا ہم صورت اور ہم زبان بن جاتا ہے۔ خط کے ذریعے نہ صرف پیغام پہنچتا ہے بلکہ تہذیب، آداب اور تحریری مہارت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خط کو ملاقات کا بدل کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ایک فرد کے جذبات کو دوسرے تک عین اسی طرح پہنچاتا ہے جیسے براہِ راست گفتگو۔
2 ۔ کیا خط میں مقام اور تاریخ لکھنا ضروری ہے؟
خط نویسی کے اصولوں کے مطابق مقام اور تاریخ لکھنا نہایت ضروری ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ خط ایک تحریری دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی معنویت وقت اور جگہ کے تعین سے بڑھتی ہے۔ جب خط پر تاریخ لکھی جاتی ہے تو قاری کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ پیغام کب بھیجا گیا تھا اور حالات کس وقت کے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی دوست یا رشتہ دار آپ کو خط لکھے اور اس پر تاریخ درج نہ ہو تو آپ کو یہ سمجھنے میں مشکل پیش آئے گی کہ یہ خط کتنے دن یا مہینے پہلے کا ہے۔ اسی طرح سرکاری یا تعلیمی اداروں کے خطوط میں تاریخ نہ ہونے کی صورت میں وہ خط غیر معتبر یا ادھورا سمجھا جا سکتا ہے۔
اسی طرح مقام بھی خط میں اہمیت رکھتا ہے۔ خط کہاں سے بھیجا جا رہا ہے، یہ معلومات قاری کو پیغام کی اہمیت سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی تعلیمی ادارے سے خط آیا ہے تو اس پر مقام لکھا ہوگا تاکہ یہ اندازہ ہو سکے کہ پیغام کس شہر یا کس دفتر سے بھیجا گیا ہے۔ اسی طرح ذاتی خطوط میں بھی مقام لکھنے سے قاری کو یہ جاننے میں آسانی ہوتی ہے کہ بھیجنے والا کس جگہ پر ہے۔ یہ خصوصاً اس وقت زیادہ کارآمد ہوتا ہے جب لوگ مختلف شہروں یا ملکوں میں رہتے ہوں۔
یوں مقام اور تاریخ لکھنا محض ایک رسمی کارروائی نہیں بلکہ خط کی تکمیل اور اس کی افادیت کا لازمی حصہ ہے۔ یہ دونوں اجزاء خط کو وقت اور جگہ کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں اور قاری کے لیے سمجھنا آسان بناتے ہیں۔
3- خط بات چیت کی زبان میں لکھنا چاہیے یا مشکل زبان میں؟
خط ہمیشہ سادہ اور بات چیت کی زبان میں لکھنا چاہیے۔ مشکل اور ثقیل زبان استعمال کرنے سے خط اپنی اصل تاثیر کھو دیتا ہے۔ خط کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ لکھنے والا اپنی بات کو صاف اور واضح انداز میں قاری تک پہنچائے۔ اگر زبان مشکل ہوگی تو نہ صرف قاری کو سمجھنے میں دشواری ہوگی بلکہ پیغام کا اصل مطلب بھی دھندلا سکتا ہے۔ خط کا مقصد قاری کو قریب کرنا ہے، نہ کہ اسے الجھانا۔ اس لیے خط میں وہی زبان استعمال ہونی چاہیے جو روزمرہ گفتگو میں استعمال کی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر اگر کوئی دوست کو خط لکھ رہا ہے تو اس میں سادہ جملے، محبت بھرے الفاظ اور نرم لہجہ ہونا چاہیے۔ اسی طرح تعلیمی یا سرکاری خط میں بھی اگرچہ آداب اور رسمی انداز ضروری ہے لیکن زبان پھر بھی سادہ اور واضح ہونی چاہیے۔ مشکل الفاظ کا استعمال خط کو مصنوعی بنا دیتا ہے اور اس میں وہ اثر نہیں رہتا جو دل کو چھو سکے۔
بات چیت کی زبان استعمال کرنے سے خط میں قربت اور اپنائیت پیدا ہوتی ہے۔ قاری کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ لکھنے والا براہِ راست اس سے بات کر رہا ہے۔ یہی چیز خط کی اصل روح ہے۔ خط اگر عام فہم زبان میں لکھا جائے تو قاری نہ صرف پیغام سمجھتا ہے بلکہ اسے دل سے قبول بھی کرتا ہے۔ اس کے برعکس مشکل زبان قاری اور لکھنے والے کے درمیان فاصلہ پیدا کر دیتی ہے۔ اس لیے خط کو ہمیشہ بات چیت کی زبان میں ہی لکھنا بہتر ہے۔
4۔ سالگرہ یا شادی کا دعوت نامہ خط کی قسم ہے یا درخواست؟
سالگرہ یا شادی کا دعوت نامہ خط کی ایک قسم ہے، درخواست نہیں۔ درخواست عام طور پر کسی کام کی اجازت یا سہولت حاصل کرنے کے لیے لکھی جاتی ہے، جیسے چھٹی کی درخواست، وظیفہ لینے کی عرضی یا کسی سرکاری کام کے لیے درخواست۔ اس کے برعکس دعوت نامہ خوشی کے موقع پر دوسروں کو شریک کرنے کے لیے لکھا جاتا ہے۔ خط نویسی میں یہ ایک الگ نوعیت کا خط ہے جسے غیر رسمی خط یا دوستانہ خط بھی کہا جا سکتا ہے۔ دعوت نامہ کا مقصد قاری سے کوئی کام کروانا نہیں ہوتا بلکہ اسے خوشی میں شریک کرنا ہوتا ہے۔
دعوت نامے میں زبان محبت بھری اور نرم رکھی جاتی ہے۔ اس میں قاری کو خاص اہتمام کے ساتھ بلایا جاتا ہے اور تقریب کی تفصیل درج کی جاتی ہے، جیسے تاریخ، وقت اور مقام۔ یہ سب اجزاء دعوت نامے کو خط کی شکل دیتے ہیں لیکن یہ درخواست سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ دعوت نامہ بھی درخواست ہے تو یہ درست نہیں کیونکہ درخواست میں عموماً التجا اور حاجت مندی ہوتی ہے جبکہ دعوت نامے میں خوشی اور اپنائیت جھلکتی ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ سالگرہ یا شادی کا دعوت نامہ خط کی ایک ذیلی قسم ہے جو تعلقات کو مزید گہرا کرنے اور دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شامل کرنے کے لیے لکھی جاتی ہے۔ یہ خط لکھنے والے کے خلوص اور محبت کا اظہار بھی ہے اور قاری کو عزت دینے کا ذریعہ بھی۔
5 ۔ کس طرح کے خط میں محبت اور خلوص کا اظہار ضروری ہے؟
محبت اور خلوص کا اظہار ذاتی اور غیر رسمی خطوط میں سب سے زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ یہ خطوط عموماً رشتہ داروں، دوستوں اور قریبی تعلق رکھنے والے افراد کو لکھے جاتے ہیں۔ ان میں محض معلومات یا خبریں دینے کے بجائے جذبات، احساسات اور قربت کا اظہار زیادہ اہم ہوتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی بیٹا اپنے والدین کو خط لکھے تو اس میں ان کی خیریت معلوم کرنا، اپنی حالت بتانا اور ان کے لیے دعائیں لکھنا محبت اور خلوص کا حصہ ہے۔ اسی طرح اگر کوئی دوست اپنے دوسرے دوست کو خط لکھے تو اس میں دوستانہ اپنائیت اور بے تکلفی لازمی ہونی چاہیے۔
محبت اور خلوص خط کو محض ایک تحریر سے بڑھا کر دل کی آواز بنا دیتے ہیں۔ ایسے خطوط قاری کے دل کو چھو لیتے ہیں کیونکہ ان میں رسمی انداز نہیں بلکہ جذباتی رشتہ جھلکتا ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ غیر رسمی خطوط میں اگر محبت اور خلوص نہ ہو تو وہ بے جان محسوس ہوتے ہیں۔ سرکاری اور کاروباری خطوط میں اگرچہ محبت کا عنصر نہیں ہوتا لیکن ذاتی خطوط میں یہ سب سے اہم ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ وہ تمام خطوط جو خاندانی، دوستانہ یا ذاتی نوعیت کے ہوں، ان میں محبت اور خلوص کا اظہار ضروری ہے۔ یہی اظہار خط کو مؤثر اور پرخلوص بناتا ہے اور تعلقات میں مضبوطی پیدا کرتا ہے۔ یہ خطوط وقت گزرنے کے بعد بھی قیمتی یادگار کے طور پر محفوظ رہتے ہیں کیونکہ ان میں خلوص اور سچائی کا عکس ہوتا ہے۔
4 امتحانی مشق نمبر
مہان کی عزت، خون کا بدلہ
مہان کی عزت کا خلاصہ
سمی کا خاوند وفات پا گیا اور اس کے بعد اس کی زندگی مشکلات سے بھر گئی۔ اس کا قبیلے کا سردار بی برگ اس کی جان، آبرو اور جائیداد کا دشمن بن گیا۔ بی برگ چاہتا تھا کہ وہ بیوہ سمی کی تمام جائیداد پر قبضہ کر لے، چاہے اس میں سمی کی ذاتی محنت سے حاصل شدہ مویشی بھی شامل ہوں۔ سمی کی جائیداد محض ایک پرانا خیمہ اور چند بھیڑیں اور گائیں تھیں، لیکن وہ جانتی تھی کہ بی برگ کا ارادہ صرف قبضہ کرنے کا ہے۔ اس نے اپنے محنت سے حاصل شدہ مویشی دینے سے انکار کر دیا اور شام کی تاریکی میں انہیں پڑوسی قبیلے کے سردار دو دہ خان کی پناہ میں لے گئی۔ دودہ خان نے سمی کو مہمان کا رتبہ دیا اور اس کے جان و مال کا تحفظ کرنے کا وعدہ کیا۔
جب بی برگ کو معلوم ہوا کہ سمی کے مویشی محفوظ ہیں تو وہ غصے میں اپنے سواروں کے ساتھ پڑوسی قبیلے کی طرف روانہ ہوا تاکہ مویشی واپس لے سکے۔ سمی نے اپنی کہانی دودہ خان کی ماں کو سنائی، جس سے وہ بہت متاثر ہوئیں اور فوراً اپنے بیٹے کو جگایا۔ ماں نے حکم دیا کہ یا تو سمی کے مویشی صحیح سلامت واپس لاؤ یا اپنی جان پر کھیلنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ دودہ خان کا فرمانبردار بیٹا فوراً گھوڑے پر سوار ہو گیا اور بی برگ کا پیچھا کرنے لگا۔
راستے میں دودہ خان نے بی برگ کو بتایا کہ وہ صرف مویشی واپس لینے آیا ہے اور کسی جھگڑے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ بی برگ اپنی طاقت اور سرداری کے باوجود مویشی واپس نہ لے سکا۔ یوں سمی نہ صرف اپنی محنت کا پھل حاصل کر سکی بلکہ اس کے حقوق کی حفاظت بھی ممکن ہوئی۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ بہادری، انصاف اور دوسروں کے حقوق کی پاسداری زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سمی کی ہوشیاری اور پڑوسی قبیلے کی مدد نے اس کے لیے سکون اور تحفظ کی ضمانت دی، اور یہ ثابت کیا کہ نیک نیتی اور حوصلہ کسی بھی ظالم کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
خون کا بدلہ کا خلاصہ
مراد خان گاؤں کا ایک بہادر اور معزز شخص تھا جو دشمن کے حملے میں شدید زخمی ہو گیا اور اپنے حجرے میں خون میں لت پت پڑا تھا۔ اس کی بیوی اور بیٹی غم سے نڈھال تھیں جبکہ گاؤں کے لوگ اس کے گرد جمع تھے۔ مراد خان کی حالت بگڑتی گئی اور زیادہ خون بہنے سے وہ کمزور ہو گیا۔ اپنے آخری وقت میں اس نے حسرت سے کہا کہ کاش اس کا کوئی بیٹا ہوتا جو اس کے خون کا بدلہ لیتا۔ اس کی بیٹی سپین گل نے وعدہ کیا کہ وہ اپنے باپ کے خون کا بدلہ لے گی۔ مراد خان اپنی بیٹی کے اس عزم پر مطمئن ہو کر دنیا سے رخصت ہو گیا۔
وقت گزرتا گیا اور سپین گل کے دل میں بدلے کی آگ مزید بھڑکتی گئی لیکن اسے اپنے باپ کے قاتل کا پتا نہ چل سکا۔ وہ اپنی جوانی، حسن اور زندگی کی خوشیاں بھول کر صرف انتقام کے جذبے میں جلتی رہی یہاں تک کہ اپنی ماں کی خدمت سے بھی غافل ہو گئی۔ ایک رات اسے خواب میں اپنے باپ کی آواز سنائی دی جس میں وہ کہہ رہا تھا کہ وہ اس کی کوششوں سے خوش ہے اور اب اسے چاہیے کہ انتقام چھوڑ کر اپنی ماں کی خدمت کرے۔ یہ خواب سپین گل کے لیے ایک پیغام تھا مگر وہ پھر بھی اپنے جذبے کو بھلا نہ سکی۔
ایک رات ان کے دروازے پر ایک زخمی نوجوان آ کر گر پڑا۔ سپین گل اور اس کی ماں نے اس کی خدمت کی اور اسے پناہ دی۔ یہ نوجوان وہی شخص نکلا جس نے مراد خان کو قتل کیا تھا۔ اس نے خود اعتراف کیا اور سپین گل سے کہا کہ وہ اسے قتل کر کے اپنے باپ کے خون کا بدلہ لے لے۔ سپین گل نے بندوق اٹھا لی مگر اس کی ماں نے اسے روکا اور کہا کہ ہمارے گھر میں پناہ لینے والے کی جان محفوظ ہے، چاہے وہ دشمن ہی کیوں نہ ہو۔ ماں کی باتوں نے سپین گل کے دل پر اثر کیا اور اس نے اپنے باپ کے قاتل کو معاف کر دیا۔
شادی بیاہ کی رسومات کی اہمیت
شادی بیاہ کی تقریبات میں روایتی رسومات کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ رسومات نہ صرف خوشیوں کے لمحات پیدا کرتی ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے درمیان محبت اور قربت کو بھی بڑھاتی ہیں۔ ہر رسم کا اپنا ایک ثقافتی اور سماجی مطلب ہوتا ہے، جو شادی کی خوشیوں کو مزید یادگار بناتا ہے۔ رسومات کی ترتیب اور ان کی ادائیگی کا طریقہ معاشرتی روایات اور علاقے کی خاصیت کے مطابق مختلف ہو سکتا ہے۔
رسم حنا کی ابتدا
رسم حنا شادی سے چند دن پہلے شروع کی جاتی ہے۔ اس رسم میں دلہن کے ہاتھوں اور پیروں پر حنا لگائی جاتی ہے۔ حنا لگانے کا مقصد دلہن کو خوش رنگ و رخسار دینا اور شادی کی خوشیوں کی علامت کے طور پر اسے منانا ہے۔ یہ رسم عام طور پر خواتین کے درمیان ادا کی جاتی ہے اور اس میں گانے، رقص، اور ہنسی خوشی کا ماحول قائم ہوتا ہے۔
رسم حنا کی تیاری
رسم حنا سے پہلے دلہن کی خوبصورتی کے لیے خاص تیاری کی جاتی ہے۔ دلہن کے ہاتھوں اور پیروں کی صفائی اور نرم جلد کے لیے مخصوص تیل یا کریم استعمال کی جاتی ہے۔ اس کے بعد حنا کے پیسٹ کو مختلف ڈیزائنوں میں لگایا جاتا ہے جو شادی کی خوشیوں اور خوش قسمتی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ اس موقع پر دلہن کے دوست اور رشتہ دار بھی شامل ہوتے ہیں اور رنگین کپڑے پہن کر تقریب کو مزید رنگین اور خوشگوار بناتے ہیں۔
رسم حنا میں موسیقی اور رقص
رسم حنا کے دوران موسیقی اور رقص کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ خواتین کے گروہ گانے گا کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور رقص کے ذریعے ماحول کو خوشگوار بناتے ہیں۔ یہ موقع نہ صرف دلہن بلکہ خاندان کی خواتین کے لیے بھی خوشیوں اور سماجی میل جول کا ذریعہ ہوتا ہے۔
رسم حنا کی سماجی اہمیت
رسم حنا صرف دلہن کی خوبصورتی کے لیے نہیں بلکہ سماجی تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے بھی اہم ہے۔ یہ رسم خاندان اور دوستوں کے درمیان محبت اور ہم آہنگی پیدا کرتی ہے۔ اس موقع پر خواتین کے درمیان تجربات، نصائح اور خوشی کا تبادلہ بھی ہوتا ہے، جو معاشرتی رشتوں کو مزید مستحکم کرتا ہے۔
نکاح کی رسم کا آغاز
نکاح شادی کی رسمی اور سب سے اہم تقریب ہے۔ اس رسم میں دلہا اور دلہن کے درمیان عقد ہوتا ہے جو شادی کو قانونی اور مذہبی طور پر مکمل کرتا ہے۔ نکاح کی رسم عام طور پر مسجد، گھر یا کسی شادی ہال میں ادا کی جاتی ہے۔ اس موقع پر قاضی یا مذہبی پیشوا موجود ہوتا ہے جو نکاح کے شرعی اور قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کی نگرانی کرتا ہے۔
نکاح کی رسم کی تیاری
نکاح سے پہلے دونوں خاندانوں کی تیاریاں مکمل کی جاتی ہیں۔ دلہن اور دلہا کے کپڑوں، زیورات، اور دیگر ضروری اشیاء کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ مکان یا ہال کو سجاوٹ کے ذریعے خوش آئند ماحول میں تبدیل کیا جاتا ہے تاکہ مہمانوں اور شرکاء کے لیے خوشی اور احترام کا ماحول فراہم کیا جا سکے۔
نکاح کی رسمی کارروائی
نکاح کے دوران قاضی یا مذہبی پیشوا عقد پڑھ کر شادی کو قانونی اور مذہبی حیثیت دیتا ہے۔ دولہا اور دلہن کے درمیان رشتہ داری کے دستاویزات تیار کیے جاتے ہیں اور دونوں کی منظوری کے بعد نکاح مکمل ہوتا ہے۔ اس دوران مہمان، رشتہ دار اور دوست موجود ہوتے ہیں اور شادی کے موقع کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔
ولائمہ کی رسم
نکاح کے بعد ولائمہ کی تقریب منعقد کی جاتی ہے جو شادی کی خوشیوں کا جشن ہے۔ ولائمہ میں خاندان اور دوستوں کو دعوت دی جاتی ہے اور خوشی کا اظہار کھانے، تقریبات اور خوشگوار ماحول کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ یہ رسم خاندان اور کمیونٹی کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنے اور شادی کے موقع کو مکمل کرنے کا ذریعہ ہے۔
رسومات میں ثقافتی رنگ
شادی بیاہ کی رسومات میں ہر عمل کے پیچھے ایک ثقافتی اور تاریخی پس منظر موجود ہوتا ہے۔ حنا، نکاح اور ولائمہ کے مختلف انداز علاقے اور خاندان کی روایت کے مطابق مختلف ہو سکتے ہیں۔ یہ رسومات نہ صرف خوشیوں کو بڑھاتی ہیں بلکہ بچوں اور نوجوانوں کو اپنی ثقافت اور روایات سے روشناس بھی کراتی ہیں۔
رسومات کی معنوی اہمیت
ہر رسم شادی بیاہ میں خوشی کے اظہار کے ساتھ ساتھ ایک معنوی مقصد بھی رکھتی ہے۔ حنا خوش قسمتی کی علامت ہے، نکاح قانونی اور مذہبی حیثیت فراہم کرتا ہے، اور ولائمہ سماجی تعلقات کو مضبوط کرتا ہے۔ یہ تمام رسومات مل کر شادی کی تقریب کو مکمل اور یادگار بناتی ہیں۔
خاندان اور کمیونٹی کا کردار
شادی بیاہ کی رسومات میں خاندان اور کمیونٹی کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔ یہ لوگ شادی کی تقریبات میں حصہ لے کر خوشی میں شریک ہوتے ہیں اور نئے رشتے قائم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ رسومات کے دوران خاندان کے افراد اور دوست ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور محبت کا مظاہرہ کرتے ہیں، جو معاشرتی تعلقات کو مزید مضبوط کرتا ہے۔
نتیجہ
شادی بیاہ کی رسومات معاشرتی، ثقافتی اور مذہبی اہمیت رکھتی ہیں۔ رسم حنا اور نکاح جیسے تقاضے شادی کے خوشیوں بھرے لمحات کو یادگار بناتے ہیں اور خاندان و کمیونٹی کے تعلقات کو مستحکم کرتے ہیں۔ یہ رسومات نہ صرف دلہا اور دلہن کی خوشیوں کا اظہار ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ثقافتی اور سماجی سبق بھی فراہم کرتی ہیں۔ شادی کی ہر رسم اپنے اندر محبت، احترام، اور تعاون کی تعلیم رکھتی ہے، جو معاشرتی ہم آہنگی اور خوشیوں کے فروغ کا سبب بنتی ہے۔
1- سمی کی کل جائیداد کیا تھی؟
2- مہمان کی عزت کا قابلِ نفرت کردار کس کا ہے؟
3- مراد خان مرتے وقت کس خیال سے بے چین تھا؟
4- ۔ قاتل نے مراد خان کو کیوں قتل کیا
5- سپین گل کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد کیا تھا ؟
1- سمی کی کل جائیداد کیا تھی؟
سمی کی کل جائیداد بہت محدود تھی۔ اس میں ایک پھٹا پرانا خیمہ اور چند بھیڑیں اور گائیں شامل تھیں۔ اس کے خاوند کی ملکیت میں جو مویشی اور سامان تھے، وہ بھی بعض حصوں میں سردار کو دے دیے گئے تھے، لیکن سمی نے اپنی محنت سے حاصل شدہ مویشی دینے سے انکار کر دیا تھا تاکہ بیوہ عورت کے حقوق محفوظ رہیں۔
2- مہمان کی عزت کا قابلِ نفرت کردار کس کا ہے؟
مہمان کی عزت کے قابلِ نفرت کردار بی برگ ہے۔ وہ سمی کے خاوند کے بعد اس کی جان و مال کا دشمن بن گیا اور بیوہ سمی کے مویشیوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کی لالچ، طاقت اور سرداری کا غرور اسے دوسروں کے حقوق کی پرواہ نہ کرنے والا بناتا ہے۔
3- مراد خان مرتے وقت کس خیال سے بے چین تھا؟
مراد خان مرتے وقت اس بات سے بے چین تھا کہ اس کا کوئی بیٹا نہیں ہے جو اس کے خون کا بدلہ لے سکے۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کی بے چین روح کو سکون ملے، لیکن افسوس کے ساتھ اس کے پاس اپنے خون کے بدلے کے لیے کوئی وارث نہیں تھا
4- قاتل نے مراد خان کو کیوں قتل کیا؟
قاتل نے مراد خان کو کسی سازش یا غلط فہمی کی بنیاد پر گولی مار دی تھی۔ کہانی میں بتایا گیا ہے کہ نوجوان خود بھی نہیں جانتا تھا کہ اس کی گولی کے نتیجے میں مراد خان کو شدید نقصان پہنچے گا۔ یہ قتل جان بوجھ کر نہیں بلکہ حادثاتی یا غلط معلومات کی وجہ سے ہوا۔
5- سپین گل کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد کیا تھا؟
سپین گل کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد اپنے باپ مراد خان کا خون کا بدلہ لینا تھا۔ وہ صرف اسی مقصد کے لیے جیتی رہی اور اپنے غم، غصے اور انتقام کی آگ میں تمام جذبات اور زندگی کے دیگر پہلوؤں کو پس پشت ڈال دیا تھا۔
میرے ملاح لہروں کے پالے ہوئے
میرے دہقاں پسینوں کے ڈھالے ہوئے
میرے مزدور اس دور کے کوہ کن
چاند میری زمیں پھول میرا وطن
یہ اشعار ساقی جاوید کے ہیں جو وطن، محنت کشوں اور عوامی قربانیوں پر شاعری کے لیے مشہور ہیں۔ ان میں ملاح، دہقان اور مزدوروں کی محنت کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے اور وطن کی خوبصورتی اور عظمت کو شاعرانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
یہ اشعار محنت کشوں، کسانوں اور مزدوروں کے عظیم کردار کی تعریف کرتے ہیں۔ پہلے مصرعے میں شاعر کہتا ہے "میرے ملاح لہروں کے پالے ہوئے"۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمارے ملک کے ملاح، یعنی کشتی چلانے والے اور پانی کے ماہر لوگ، سخت محنت اور مستقل جدوجہد کے ذریعے لہروں کو قابو میں رکھتے ہیں اور اپنی زندگی کی محنت سے دوسروں کی زندگی کو آسان بناتے ہیں۔ لہروں کے پالنے کا مطلب ہے کہ یہ لوگ مشکل حالات میں بھی صبر اور حوصلے سے کام لیتے ہیں تاکہ ملک کی معاشی ترقی میں حصہ ڈال سکیں۔
دوسرے مصرعے "میرے دہقاں پسینوں کے ڈھالے ہوئے" میں شاعر نے کسانوں کی محنت کی تصویر پیش کی ہے۔ دہقاں، یعنی وہ لوگ جو زمین پر محنت کرتے ہیں، اپنی محنت اور پسینے سے زمین کو زرخیز بناتے ہیں اور فصلیں اگاتے ہیں۔ یہ مصرع اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہمارے معاشرے کی بنیادی ترقی کسانوں کی محنت کے بغیر ممکن نہیں۔ زمین کی زرخیزی اور ہمارے کھانے پینے کی چیزیں ان کی لگن اور محنت کا نتیجہ ہیں۔
تیسرے مصرعے "میرے مزدور اس دور کے کوہ کن" میں مزدوروں کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے۔ شاعر نے انہیں "کوہ کن" یعنی پہاڑ کھودنے والے کے برابر قرار دیا ہے تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ معاشرے میں جو بھی بڑی کامیابی یا ترقی حاصل کی جاتی ہے، اس کے پیچھے محنت کرنے والے مزدوروں کی انتھک محنت اور قربانیاں ہوتی ہیں۔ مزدور ہر دور کی بنیاد ہیں اور ان کے بغیر ملک کی ترقی اور خوشحالی کا تصور ناممکن ہے۔
آخر میں شاعر کہتا ہے "چاند میری زمیں پھول میرا وطن"۔ اس مصرعے میں شاعر نے اپنے وطن کے حسن اور عظمت کو بیان کیا ہے۔ ملک کی زمین اور قدرتی وسائل، چاند اور پھول کی مانند قیمتی اور خوبصورت ہیں، اور یہ سب محنت کشوں، کسانوں اور مزدوروں کی محنت سے ہمارے ملک میں زندہ اور خوشحال ہیں۔ شاعر نے اس طرح وطن سے محبت اور فخر کا جذباتی رشتہ واضح کیا ہے۔
مجموعی طور پر یہ اشعار ملک کے محنت کش عوام کی قربانیوں کو سراہتے ہیں اور ان کے کردار کو معاشرے کی ترقی کے لیے لازمی قرار دیتے ہیں۔ حبیب جالب نے عوام دوست شاعری کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ حقیقی ترقی صرف انہی کی محنت سے ممکن ہے جو زمین، پانی اور محنت کے ذریعے ملک کو مضبوط بناتے ہیں۔ یہ کلام نہ صرف محنت کی قدر کو اجاگر کرتا ہے بلکہ وطن سے محبت اور خدمت کے جذبے کو بھی فروغ دیتا ہے۔
بستی بستی تیرا چرچا قدم قدم پر گیت ترے
دھڑکن دھڑکن پیار ہے تیرا نگر نگر میں میت ترے
جب تک ہے یہ دنیا باقی ہم دیکھیں آزاد تجھے
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے
یہ اشعار معروف شاعر مسرور انور کے ہیں۔ مسرور انور اپنی شاعری میں وطن سے محبت، عوامی جذبات اور قوم کی خدمت کے جذبے کو اجاگر کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں وطن کی عظمت، قربانی اور اس کی حفاظت کے لیے عزم کو نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کا کلام عوامی محبت، اتحاد اور وطن پرستی کا درس دیتا ہے۔
یہ اشعار وطن سے محبت، عقیدت اور فخر کے جذبات کو بہترین انداز میں بیان کرتے ہیں۔ ہر مصرعے میں وطن کی عظمت اور اس کی حفاظت کے لیے ایک واضح پیغام موجود ہے۔ شاعر نے وطن کی خوبصورتی، آزادی اور ترقی کے لیے عوامی جذبے کو اجاگر کیا ہے۔
پہلے مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ ہر بستی اور ہر قدم پر وطن کے چرچے ہیں۔ ہر گاؤں اور شہر میں وطن کی عظمت کے گیت گائے جاتے ہیں۔ اس مصرعے میں وطن کی شہرت اور اہمیت کو ہر مقام پر محسوس کرنے کی بات کی گئی ہے۔
دوسرے مصرعے میں کہا گیا ہے کہ وطن کے لیے محبت ہر دل کی دھڑکن میں موجود ہے۔ ہر لمحہ وطن کی خدمت اور محبت کا جذبہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ شاعر نے وطن کو زندگی کا لازمی حصہ قرار دیا ہے، یعنی وطن کے بغیر زندگی مکمل نہیں ہے۔
تیسرے مصرعے میں آزادی کے تحفظ پر زور دیا گیا ہے۔ شاعر چاہتا ہے کہ وطن ہمیشہ آزاد اور خوشحال رہے۔ یہ مصرع قوم کے عزم اور وابستگی کو ظاہر کرتا ہے کہ ہر شہری کی خواہش ہے کہ وطن کی آزادی برقرار رہے۔
چوتھے مصرعے میں دعا کی گئی ہے کہ اللہ ہمارے وطن کو ہر قدم پر آباد، محفوظ اور خوشحال رکھے۔ شاعر نے اپنی نظم کے آخر میں وطن کی ترقی اور حفاظت کے لیے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی ہے۔ یہ مصرع امید، محبت اور دعا کا آئینہ دار ہے۔
مجموعی طور پر یہ اشعار وطن کے لیے محبت، فخر اور حفاظت کے جذبات کو اجاگر کرتے ہیں۔ شاعر مسرور انور نے اپنی نظم کے ذریعے قوم کو یاد دلایا ہے کہ وطن کی عظمت ہر فرد کی محبت، قربانی اور خدمت کا نتیجہ ہے۔ یہ نظم وطن کی محبت، قربانی اور اتحاد کے جذبے کو فروغ دیتی ہے۔

No comments:
Post a Comment