AIOU 0437 Solved Assignments Spring 2025


AIOU 0437 Islamiat Solved Assignment 1 Spring 2025


AIOU 0437 Assignment 1


سوال نمبر 1- سورۃ آل عمران کا شانِ نزول اور تاریخی پس منظر پر جامع مضمون تحریر کریں۔

سورۃ آل عمران مدینہ میں نازل ہوئی اور اس میں 200 آیات ہیں۔ اس سورت کا شانِ نزول اور تاریخی پس منظر صدرِ اول کے اہم واقعات پر مبنی ہے۔ اس میں غزوۂ بدر اور غزوۂ احد کے واقعات کا تذکرہ ہے، نیز نجران کے عیسائیوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مباحثے اور ان کے وفد کی آمد کا بھی ذکر موجود ہے۔ اس سورت میں اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کو اسلام کی دعوت دی گئی ہے اور ان کے عقائد کی تردید کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، منافقین کے کردار اور ان کی سازشوں کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ یہ سورت مسلمانوں کو صبر، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب دیتی ہے اور ان کو اخلاقی اور معاشرتی آداب سکھاتی ہے۔


سوال نمبر 2-اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ۫-وَ مَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْیًۢا بَیْنَهُمْؕ- اس آیت کا ترجمہ اور تشریح لکھیں۔

ترجمہ: بیشک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اورجنہیں کتاب دی گئی انہوں نے آپس میں اختلاف نہ کیا مگر اپنے پاس علم آجانے کے بعد،اپنے باہمی حسد کی وجہ سے۔ اور جواللہ کی آیتوں کاانکار کرے تو بیشک اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔

تشریح: اس آیت میں اللہ تعالیٰ واضح فرما رہا ہے کہ اس کے نزدیک مقبول دین صرف اسلام ہے۔ اس دین کو اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعے بھیجا اور یہی دین فطرت کے عین مطابق ہے۔ اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کو جب علم حق پہنچا تو انہوں نے محض حسد اور ضد کی بنا پر اس میں اختلاف کیا اور مختلف فرقوں میں بٹ گئے۔ اس آیت میں مسلمانوں کو اس بات کی نصیحت کی گئی ہے کہ وہ علم آنے کے بعد باہمی اختلافات سے بچیں اور اللہ کے دین پر ثابت قدم رہیں۔


سوال نمبر 3- حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہودیوں کے موقف کی تفصیل سے بیان کریں۔

یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا نبی نہیں مانتے بلکہ وہ انہیں نعوذ باللہ ایک جھوٹا مدعی نبوت اور ولد الحرام قرار دیتے ہیں۔ ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر چڑھا کر قتل کر دیا تھا۔ قرآن مجید اور اسلامی عقائد اس موقف کی سختی سے تردید کرتے ہیں اور یہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے محفوظ رکھا اور انہیں اپنی طرف اٹھا لیا۔


سوال نمبر 4- غزوۂ احد کب لڑی گئی؟ اس غزوہ کے پس منظر اور نتائج پر تفصیلی مضمون تحریر کریں۔

غزوۂ احد شوال 3 ہجری میں مدینہ کے قریب احد کے مقام پر لڑی گئی۔ اس غزوہ کا پس منظر غزوۂ بدر میں قریش کی شکست کا انتقام لینا تھا۔ قریش نے تین ہزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ پر چڑھائی کی جس میں ان کے ساتھ عورتیں بھی تھیں تاکہ مرد بزدلی نہ دکھائیں۔ مسلمانوں کی تعداد تقریباً سات سو تھی جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں مقابلہ کیا۔

ابتدا میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی لیکن کچھ مسلمانوں کی جانب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کے باعث (تیر اندازوں کا اپنی جگہ چھوڑ دینا)، مشرکین نے پیچھے سے حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ اس غزوہ میں ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ اگرچہ یہ غزوہ بظاہر مسلمانوں کے لیے ایک بڑا نقصان تھا، لیکن اس میں مسلمانوں کو اطاعتِ رسول کی اہمیت اور نافرمانی کے نتائج کا سبق ملا۔ اس غزوہ کے بعد مسلمانوں کی دفاعی حکمت عملی مزید مضبوط ہوئی اور انہیں آئندہ کے لیے احتیاط برتنے کا درس ملا۔


سوال نمبر 5- قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ - ترجمہ اور تشریح لکھیں۔

ترجمہ: اے حبیب! تم فرمادو، اے اہلِ کتا ب! ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں کوئی ایک اللہ کے سوا کسی دوسرے کو رب نہ بنائے پھر (بھی) اگر وہ منہ پھیریں تو اے مسلمانو! تم کہہ دو : تم گواہ رہو کہ ہم سچے مسلمان ہیں۔

تشریح: اس آیت میں اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دے رہے ہیں کہ وہ اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کو ایک مشترکہ بنیاد کی طرف دعوت دیں، جو توحید ہے۔ اس مشترکہ بات میں یہ تین اصول شامل ہیں: صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، اور اللہ کے سوا کسی انسان کو رب نہ ماننا۔ اس آیت میں اہل کتاب کو اس بات کی دعوت دی جا رہی ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اس بنیادی عقیدے پر متفق ہو جائیں۔ اگر وہ اس دعوت کو قبول نہ کریں تو مسلمانوں کو یہ اعلان کرنے کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ توحید پر قائم ہیں اور اللہ کے فرمانبردار ہیں۔


AIOU 0437 Islamiat Solved Assignment 2 Spring 2025


AIOU 0437 Assignment 2


سوال نمبر 1- گھروں میں اجازت لینے کے آداب اور احکام باب الاستیذان کی روشنی میں تحریر کریں۔

باب الاستیذان میں گھروں میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لینے کے آداب بیان کیے گئے ہیں۔ ان آداب میں سب سے اہم یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کے گھر میں اس کی اجازت کے بغیر داخل نہ ہو۔ اجازت لینے کا طریقہ یہ ہے کہ دروازے پر دستک دی جائے یا گھنٹی بجائی جائے اور اپنا تعارف کرایا جائے۔ تین بار اجازت طلب کی جائے، اگر جواب نہ ملے تو واپس لوٹ جانا چاہیے۔ گھر کے اندر جھانکنا منع ہے اور اگر کوئی شخص کسی نا محرم کو دیکھ لے تو نظر ہٹا لینی چاہیے۔ ان آداب کا مقصد گھروں کی حرمت اور پردگی کو برقرار رکھنا اور ناگہانی صورتحال سے بچنا ہے۔


سوال نمبر 2- سورۃ آل عمران کی روشنی میں آخرت کی اہمیت پر نوٹ لکھیں۔

سورۃ آل عمران میں آخرت کی اہمیت کو مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سورت میں ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ سورت ان لوگوں کے برے انجام سے بھی خبردار کرتی ہے جو دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں۔ غزوۂ احد کے تناظر میں شہداء کے اجر و ثواب اور جنت میں ان کے مقام کا ذکر آخرت کی ابدی زندگی کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ مزید برآں، اس سورت میں قیامت کے دن اللہ کے سامنے پیشی اور اعمال کے حساب و کتاب کا تذکرہ بھی موجود ہے، جو مسلمانوں کو دنیا میں رہتے ہوئے نیک اعمال کرنے اور برائیوں سے بچنے کی ترغیب دیتا ہے۔


سوال نمبر 3- ایک اچھے مومن کی صفات پر سورۃ آل عمران کی روشنی میں جامع نوٹ لکھیں۔

سورۃ آل عمران میں ایک اچھے مومن کی کئی صفات بیان کی گئی ہیں۔ ان میں سے چند اہم صفات یہ ہیں: اللہ پر ایمان لانا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، آخرت پر یقین رکھنا، اللہ سے ڈرنا اور اس کی رضا کے لیے عمل کرنا، مصیبت اور خوشحالی ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا، غصہ کو پی جانا اور لوگوں کو معاف کر دینا، برائی کے بعد فوراً توبہ کرنا اور نیک اعمال بجا لانا، اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اور صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنا، اور اللہ کی اطاعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنا۔ یہ صفات ایک مومن کو دنیا اور آخرت میں کامیابی سے ہمکنار کرتی ہیں۔


سوال نمبر 4- تین جلیل القدر انبیاء کی بعض خصوصی صفات بیان کریں۔

تین جلیل القدر انبیاء جن کی خصوصی صفات قابل ذکر ہیں وہ یہ ہیں: حضرت نوح علیہ السلام اپنی ثابت قدمی اور طویل عرصے تک اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلانے کے لیے مشہور ہیں۔ انہوں نے ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ کی اور ہر طرح کی تکالیف برداشت کیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی بے مثال توحید پرستی اور اللہ کی راہ میں ہر قربانی کے لیے تیار رہنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتوں کو توڑا اور اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کے حکم پر بھی سر تسلیم خم کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی جرات، حق گوئی اور فرعون کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں معجزات عطا کیے اور بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات دلائی۔


سوال نمبر 5- دور حاضر میں مسلمانوں کے مابین باہمی تفرقہ اور اختلافات کے حل کے لیے احادیث مبارکہ کی روشنی میں تجاویز اور سفارشات تحریر کریں۔

دور حاضر میں مسلمانوں کے مابین باہمی تفرقہ اور اختلافات ایک سنگین مسئلہ ہے۔ احادیث مبارکہ کی روشنی میں اس کے حل کے لیے چند تجاویز اور سفارشات درج ذیل ہیں:

1. قرآن و سنت کی طرف رجوع: تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اختلافات کو حل کرنے کے لیے قرآن مجید اور صحیح احادیث کی طرف رجوع کریں۔ انہی میں تمام مسائل کا حل موجود ہے۔

2. اتحاد و اتفاق کی اہمیت کو سمجھنا: مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ باہمی اتحاد و اتفاق کی اہمیت کو سمجھیں اور تفرقہ بازی سے بچیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا ہے جس کے ایک عضو کو تکلیف ہو تو سارا جسم محسوس کرتا ہے۔

3. حسن ظن اور رواداری: مسلمانوں کو ایک دوسرے کے بارے میں حسن ظن رکھنا چاہیے اور رواداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ جلد بازی میں کسی پر فتویٰ لگانا یا بدگمانی کرنا مناسب نہیں۔

4. علم اور تحقیق کی اہمیت: دینی مسائل میں بغیر علم کے رائے زنی سے بچنا چاہیے اور مستند علماء سے رجوع کرنا چاہیے۔ تحقیق اور تدبر سے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

5. مذاکرات اور افہام و تفہیم: باہمی اختلافات کو پرامن مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایک دوسرے کی بات کو صبر سے سننا اور اپنی بات کو حکمت سے پیش کرنا چاہیے۔

6. فتنہ انگیزی سے بچنا: ایسے اقوال و افعال سے بچنا چاہیے جو فتنہ اور انتشار کا باعث بنیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ امن و آشتی کو فروغ دیں۔

7. اخلاص اور للہیت: ہر عمل میں اخلاص اور للہیت کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ ذاتی مفادات اور گروہی تعصبات سے بالاتر ہو کر حق کی پیروی کرنی چاہیے۔

ان تجاویز پر عمل پیرا ہو کر مسلمان دور حاضر کے باہمی تفرقہ اور اختلافات پر قابو پا سکتے ہیں اور ایک مضبوط اور متحد امت بن سکتے ہیں۔


AIOU 0437 Islamiat Solved Assignment 3 Spring 2025


AIOU 0437 Assignment 3


سوال نمبر 1- نماز کے مکروہات پر تفصیلی مضمون تحریر کریں۔

نماز میں کچھ ایسے افعال یا حرکات ہیں جو نماز کے خشوع و خضوع کو کم کرتے ہیں یا اس کی خوبصورتی کو متاثر کرتے ہیں۔ ان کو مکروہاتِ نماز کہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں:

  • بلا ضرورت ادھر ادھر دیکھنا۔
  • کپڑوں یا جسم کے کسی حصے سے کھیلنا۔
  • انگلیوں کو چٹخانا یا ان میں انگلیاں ڈالنا۔
  • جمائی روکنے کی کوشش نہ کرنا۔
  • فرض نماز میں کسی خاص سورت کو بار بار پڑھنا اور دوسری سورتوں کو چھوڑ دینا۔
  • امام کا منبر پر خطبہ دیتے وقت بلا ضرورت بات کرنا۔
  • نماز میں پاؤں کو بلا ضرورت ہلانا۔
  • سجدے میں کہنیوں کو زمین پر بچھانا (جس طرح کتا بچھاتا ہے)۔
  • مردوں کا اپنے سر کو پگڑی یا عمامہ سے اس طرح لپیٹنا کہ پیشانی کھلی نہ رہے۔
  • نماز میں بلا عذر ایک پاؤں پر کھڑا ہونا۔
  • نماز میں کمر کو جھکانا یا ادھر ادھر مائل کرنا۔
  • نماز میں منہ کو آسمان کی طرف اٹھانا۔
  • تسبیح کے دانوں پر انگلیوں سے شمار کرنا (دل میں شمار کرنا افضل ہے)۔
  • نماز میں کسی کو اشارہ کرنا۔
  • تنگی محسوس ہونے کے باوجود نماز پڑھنا (مثلاً پیشاب یا پاخانے کی حاجت ہو)۔

سوال نمبر 2- عورتوں کی امامت اور باجماعت نماز پڑھنے کے بارے میں شرعی حکم تفصیل سے بیان کریں۔

عورتوں کے لیے مردوں کی امامت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ یعنی عورت مردوں کی جماعت نہیں کروا سکتی۔ البتہ عورتیں آپس میں ایک دوسرے کی امامت کروا سکتی ہیں، لیکن اس صورت میں امام عورت صف کے درمیان میں کھڑی ہوگی، مردوں کی طرح آگے نہیں کھڑی ہوگی۔

جہاں تک عورتوں کے باجماعت نماز پڑھنے کا تعلق ہے تو اس میں فقہاء کی آراء مختلف ہیں۔ جمہور علماء کے نزدیک عورتوں کے لیے مسجد میں مردوں کے ساتھ باجماعت نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے، یعنی ناپسندیدہ ہے۔ ان کے نزدیک عورتوں کے لیے اپنے گھروں میں تنہا نماز پڑھنا افضل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتوں کو پردے کا حکم دیا گیا ہے اور ان کا گھروں میں رہنا زیادہ محفوظ ہے۔

تاہم، بعض علماء اس کی اجازت دیتے ہیں جب کہ فتنہ کا کوئی اندیشہ نہ ہو اور عورتیں مکمل پردے کے ساتھ مسجد میں حاضر ہوں۔ اس صورت میں بھی ان کے لیے مردوں کی صفوں سے پیچھے اپنی الگ صف بنانا ضروری ہے۔

خلاصہ یہ کہ عورتوں کا مردوں کی امامت کرنا جائز نہیں، اور ان کا مردوں کے ساتھ مسجد میں باجماعت نماز پڑھنا جمہور کے نزدیک مکروہ تنزیہی ہے، البتہ اپنے گھروں میں تنہا نماز پڑھنا ان کے لیے افضل ہے۔


سوال نمبر 3- جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کے شرائط تفصیل سے بیان کریں۔

جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کے لیے چند شرائط ہیں جن کا پایا جانا ضروری ہے:

  1. مقام کا شہر یا قصبہ ہونا: جمعہ کی نماز صرف ایسے مقام پر ادا کی جا سکتی ہے جو شہر یا قصبے کی حیثیت رکھتا ہو، جہاں مستقل آبادی ہو اور ضروری سہولیات موجود ہوں۔ دیہات یا کھلے میدانوں میں جمعہ کی نماز جائز نہیں ہے۔
  2. جماعت کا ہونا: جمعہ کی نماز باجماعت ادا کرنا فرض ہے۔ تنہا جمعہ کی نماز ادا نہیں کی جا سکتی۔ فقہاء کے نزدیک کم از کم تین بالغ مردوں کا ہونا ضروری ہے جن سے جماعت قائم ہو سکے۔
  3. خطبہ دینا: جمعہ کی نماز سے پہلے دو خطبے دینا شرط ہے۔ خطبوں میں اللہ تعالی کی حمد و ثنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام اور مسلمانوں کے لیے وعظ و نصیحت ہونا چاہیے۔ خطبے نماز سے پہلے دیے جائیں گے۔
  4. وقت کا ہونا: جمعہ کی نماز ظہر کے وقت میں ادا کی جاتی ہے۔ اگر ظہر کا وقت گزر جائے تو جمعہ کی نماز قضا ہو جاتی ہے اور پھر ظہر کی نماز ادا کی جائے گی۔
  5. اذن عام (عام اجازت): جمعہ کی نماز کے لیے مسجد کا دروازہ سب کے لیے کھلا ہونا چاہیے، کسی خاص گروہ یا افراد کے لیے مخصوص نہیں ہونا چاہیے۔
  6. حاکم یا اس کے نائب کی موجودگی (بعض فقہاء کے نزدیک): بعض فقہاء کے نزدیک جمعہ کی نماز حاکم وقت یا اس کے مقرر کردہ نمائندے کی موجودگی میں ادا کرنا شرط ہے۔ تاہم، جمہور علماء اس شرط کو لازم نہیں سمجھتے۔
  7. ایک ہی جگہ پر ادا کرنا: ایک شہر یا قصبے میں اصولی طور پر ایک ہی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کی جانی چاہیے۔ اگر کسی عذر کی بنا پر ایک سے زیادہ جگہوں پر ادا کی جائے تو گنجائش ہے۔

سوال نمبر 4- امام ابو حنیفہ اور صاحبین کے مابین خطبہ جمعہ کی مقدار کے بارے میں اختلاف پر جامع نوٹ تحریر کریں۔

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے دو شاگردوں، امام ابو یوسف اور امام محمد (صاحبین رحمہما اللہ) کے درمیان خطبہ جمعہ کی مقدار کے بارے میں اختلاف موجود ہے۔

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک خطبہ جمعہ کے لیے صرف اللہ تعالی کا ذکر کافی ہے، اگرچہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ ان کے نزدیک خطبہ کا اصل مقصد وعظ و نصیحت اور اللہ تعالی کا ذکر کرنا ہے، لہذا اگر یہ مقصد کسی بھی مقدار میں حاصل ہو جائے تو کافی ہے۔ ان کے نزدیک خطبہ کے لیے کوئی خاص طوالت یا مخصوص الفاظ متعین نہیں ہیں۔

صاحبین (امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ) اس رائے سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک خطبہ جمعہ کے لیے ایک معتدل طوالت ضروری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خطبہ اتنا طویل ہونا چاہیے جس میں وعظ و نصیحت اور اہم شرعی مسائل کو بیان کیا جا سکے۔ ان کے نزدیک صرف چند کلمات یا مختصر ذکر کافی نہیں ہے، بلکہ ایک ایسا خطبہ ہونا چاہیے جو سننے والوں کے لیے فائدہ مند اور مؤثر ہو۔

اس اختلاف کی بنیاد دراصل خطبہ کے مقاصد اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف روایات کی فہم پر ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ خطبہ کے اصل جوہر یعنی ذکر الہی اور وعظ پر زور دیتے ہیں، جبکہ صاحبین خطبہ کی عملی افادیت اور اس کے مؤثر ہونے کے لیے ایک مناسب طوالت کو ضروری سمجھتے ہیں۔

حنفی مسلک میں فتویٰ صاحبین کے قول پر ہے کہ خطبہ جمعہ ایک معتدل طوالت کا ہونا چاہیے جس میں وعظ و نصیحت اور ذکر الہی شامل ہو۔ اگرچہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے بھی اپنی جگہ درست ہے، لیکن احتیاط اور سنت کے زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے صاحبین کی رائے کو ترجیح دی جاتی ہے۔


سوال نمبر 5- نماز خسوف کا طریقہ اور احکام تفصیل سے تحریر کریں۔

نماز خسوف سورج گرہن کے وقت پڑھی جانے والی نفل نماز ہے۔ اس کا طریقہ دیگر نوافل سے قدرے مختلف ہے اور اس کے کچھ خاص احکام ہیں۔

نماز خسوف کا طریقہ:

  1. نیت: امام اور مقتدی دونوں سورج گرہن کی نماز پڑھنے کی نیت کریں۔
  2. رکعتیں: یہ نماز کم از کم دو رکعتیں ہیں اور زیادہ سے زیادہ جتنی دیر گرہن جاری رہے پڑھی جا سکتی ہیں۔
  3. قیام اور قراءت: امام پہلی رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد کوئی لمبی سورت (مثلاً سورۃ البقرہ یا اس کے برابر) جہراً (آواز سے) تلاوت کریں۔ پھر رکوع کریں۔
  4. رکوع: رکوع لمبا کریں اور اس میں تسبیحات (سبحان ربی العظیم) کثرت سے پڑھیں۔
  5. قومہ: رکوع سے اٹھ کر سیدھے کھڑے ہوں (قومہ) اور اس میں بھی لمبا قیام کریں اور دعائیں پڑھیں۔
  6. دوسرا رکوع: قومہ کے بعد دوبارہ رکوع کریں اور یہ رکوع پہلے رکوع سے قدرے چھوٹا ہو۔ اس میں بھی تسبیحات پڑھیں۔
  7. دوسرا قومہ: دوسرے رکوع سے اٹھ کر پھر سیدھے کھڑے ہوں (دوسرا قومہ) اور اس میں بھی دعا کریں۔
  8. سجدہ: اس کے بعد دو سجدے کریں جو عام نمازوں کی طرح ہوں۔ سجدوں میں بھی تسبیحات (سبحان ربی الاعلیٰ) کثرت سے پڑھیں۔
  9. دوسری رکعت: دوسری رکعت بھی پہلی رکعت کی طرح پڑھی جائے گی، لیکن اس میں قراءت، رکوع اور قومہ پہلے رکعت کی نسبت مختصر ہوں گے۔ یعنی سورۃ الفاتحہ کے بعد پہلی رکعت سے چھوٹی سورت (مثلاً سورۃ آل عمران یا اس کے برابر) جہراً تلاوت کریں۔ پھر دو رکوع اور دو قومے کریں جس طرح پہلی رکعت میں کیے تھے۔ آخر میں دو سجدے کریں۔
  10. تشہد اور سلام: دوسری رکعت کے بعد تشہد پڑھیں اور پھر سلام پھیر کر نماز ختم کر دیں۔
  11. دعا اور استغفار: نماز کے بعد امام اور مقتدی دونوں اللہ تعالیٰ سے دعا کریں، گناہوں کی مغفرت طلب کریں اور گرہن کے ختم ہونے کی دعا کریں۔

نماز خسوف کے احکام:

  • یہ نماز سنت مؤکدہ ہے۔ یعنی اس کا پڑھنا سنت ہے اور اس کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔
  • یہ نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں ادا کرنا افضل ہے اور امام جہراً قراءت کروائے گا۔ اگر جماعت میسر نہ ہو تو فرداً فرداً بھی پڑھی جا سکتی ہے۔
  • عورتیں بھی یہ نماز گھروں میں ادا کر سکتی ہیں۔
  • اس نماز کے لیے کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہے، جب سے سورج گرہن شروع ہو اور جب تک ختم نہ ہو، اس دوران پڑھی جا سکتی ہے۔
  • اگر گرہن کے دوران نماز کا وقت ختم ہو جائے تو نماز موقوف کر دی جائے گی۔
  • نماز کے دوران اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرنا، صدقہ و خیرات کرنا اور گناہوں سے بچنا مستحب ہے۔
  • یہ نماز خوف خداوندی اور اس کی قدرت کی نشانیوں پر غور کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔

خلاصہ یہ کہ نماز خسوف ایک خاص طریقے سے ادا کی جانے والی دو رکعت نفل نماز ہے جو سورج گرہن کے وقت پڑھی جاتی ہے۔ اس میں ہر رکعت میں ایک سے زیادہ رکوع اور قومے ہوتے ہیں اور قراءت جہری ہوتی ہے۔ اس نماز کا مقصد اللہ تعالیٰ کی قدرت کو یاد کرنا، اس سے دعا و استغفار کرنا اور گناہوں سے توبہ کرنا ہے۔


AIOU 0437 Islamiat Solved Assignment 4 Spring 2025


AIOU 0437 Assignment 4


سوال نمبر 1- حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر تفصیلی مضمون تحریر کریں۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے تقریباً بیس سال تک خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ ان کے دورِ خلافت میں کئی اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں، جن میں انتظامی، سیاسی اور سماجی پہلو شامل ہیں۔

  • دارالحکومت کی تبدیلی: حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں دارالحکومت کوفہ تھا، جسے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے دمشق منتقل کر دیا۔ دمشق شام کا ایک اہم تجارتی اور سیاسی مرکز تھا اور اس کی جغرافیائی اہمیت بھی تھی۔ اس تبدیلی سے بنو امیہ کی حکومت کا مرکز شام بن گیا۔
  • وراثتی نظام کی بنیاد: اگرچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کے مشورے سے اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین مقرر کیا، لیکن اس عمل نے اسلامی نظام خلافت میں وراثتی نظام کی بنیاد ڈالی۔ اس اقدام کی صحابہ کرام اور بعد کے علماء نے مختلف انداز میں حمایت اور مخالفت کی۔
  • نظم و نسق میں استحکام: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے سلطنت کے نظم و نسق کو مضبوط کیا۔ انہوں نے مختلف صوبوں میں گورنر مقرر کیے اور ان کے اختیارات کو واضح کیا۔ انہوں نے ایک منظم فوج اور بحریہ کی تشکیل کی جس سے سلطنت کی حدود کی حفاظت کی گئی۔
  • فتوحات کا سلسلہ: ان کے دور میں اسلامی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ شمالی افریقہ اور خراسان کے علاقوں میں اہم فتوحات ہوئیں۔ قسطنطنیہ کو فتح کرنے کی کوشش بھی کی گئی اگرچہ وہ کامیاب نہ ہو سکی۔
  • دیوان کا قیام: انہوں نے مختلف انتظامی امور کو چلانے کے لیے دیوان قائم کیے، جن میں دیوان الخراج (مالیات)، دیوان الجند (فوج)، اور دیوان الرسائل (خط و کتابت) شامل تھے۔ ان دیوانوں کی مدد سے حکومتی امور کو بہتر طریقے سے سرانجام دیا جانے لگا۔
  • عربوں کو انتظامی عہدوں پر ترجیح: ان کے دور میں عربوں کو سلطنت کے اہم انتظامی اور فوجی عہدوں پر زیادہ ترجیح دی گئی۔ اس پالیسی کی وجہ سے غیر عرب مسلمانوں میں کچھ ناراضگی بھی پیدا ہوئی۔
  • مواصلاتی نظام کی ترقی: انہوں نے سلطنت کے مختلف حصوں کے درمیان مواصلات کو بہتر بنانے کے لیے نظام کو ترقی دی۔ ڈاک کے نظام کو منظم کیا گیا جس سے اطلاعات کی رسائی آسان ہو گئی۔
  • سماجی استحکام: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی سیاسی بصیرت اور حلم سے مسلمانوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کو کم کرنے اور سماجی استحکام لانے کی کوشش کی۔ انہوں نے مختلف قبائل اور گروہوں کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی پالیسی اختیار کی۔

مجموعی طور پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت انتظامی اور سیاسی استحکام کا دور تھا۔ ان کی بعض پالیسیوں پر اگرچہ بعد میں تنقید کی گئی، لیکن ان کی کوششوں سے ایک وسیع و عریض اسلامی سلطنت کو ایک نظم کے تحت چلانے میں مدد ملی۔


سوال نمبر 2- حضرت عمر بن عبدالعزیز کی دینی اصلاحات پر نوٹ لکھیں۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو خلافت راشدہ کے بعد بہترین خلفاء میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کا مختصر دورِ خلافت (717ء-720ء) دینی اصلاحات سے بھرپور تھا۔ ان کی اہم دینی اصلاحات درج ذیل ہیں:

  • عدل و انصاف کا قیام: حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے دور میں عدل و انصاف کو سب سے زیادہ اہمیت دی۔ انہوں نے تمام رعایا کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھا اور مظلوموں کو ان کا حق دلوایا۔ انہوں نے اپنے گورنروں کو عدل و انصاف کی سختی سے تلقین کی۔
  • مظالم کا خاتمہ: بنو امیہ کے سابقہ حکمرانوں کے دور میں ہونے والے مظالم اور ناانصافیوں کا انہوں نے خاتمہ کیا۔ غصب شدہ زمینیں اور اموال ان کے اصل حقداروں کو واپس دلوائے۔
  • بیت المال کی اصلاح: انہوں نے بیت المال کو ذاتی تصرف سے پاک کیا اور اسے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے بیت المال کی آمدنی اور اخراجات کو شفاف بنایا۔
  • قرآن و سنت کی ترویج: حضرت عمر بن عبدالعزیز نے قرآن و سنت کی تعلیمات کو عام کرنے اور ان پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ انہوں نے علماء اور فقہاء کو اکٹھا کیا اور ان سے شرعی مسائل پر مشاورت کرتے رہے۔
  • حدیث کی تدوین: ان کا سب سے بڑا دینی کارنامہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی باقاعدہ تدوین کا آغاز تھا۔ انہوں نے تمام علاقوں کے علماء کو احادیث جمع کرنے اور انہیں مرتب کرنے کا حکم دیا۔ اس اقدام نے حدیث کے علم کو محفوظ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
  • امر بالمعروف و نہی عن المنکر: انہوں نے اپنی حکومت میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضے کو فعال کیا۔ انہوں نے لوگوں کو نیکی کی دعوت دی اور برائی سے روکا۔
  • سادگی اور زہد: حضرت عمر بن عبدالعزیز نے انتہائی سادہ اور زاہدانہ زندگی گزاری۔ انہوں نے شاہانہ ٹھاٹ باٹ ترک کر دیے اور عام مسلمانوں کی طرح زندگی بسر کی۔ ان کے اس عمل سے رعایا کو بھی سادگی اختیار کرنے کی ترغیب ملی۔
  • غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک: انہوں نے اپنی رعایا میں شامل غیر مسلموں کے ساتھ بھی انصاف اور حسن سلوک کا مظاہرہ کیا۔ ان کے حقوق کا خیال رکھا گیا اور ان پر کوئی ناجائز بوجھ نہیں ڈالا گیا۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز کی ان اصلاحات کی بدولت ان کا دور خلافت ایک روشن مثال بن گیا۔ ان کی کوششوں سے اسلامی معاشرے میں دینی اقدار کو فروغ ملا اور عدل و انصاف کا بول بالا ہوا۔


سوال نمبر 3- خلافت امویہ کی علمی خدمات پر جامع نوٹ لکھیں۔

خلافت امویہ، اگرچہ سیاسی طور پر اس پر بہت سے اعتراضات کیے جاتے ہیں، لیکن اس دور میں علمی لحاظ سے بھی اہم پیش رفت ہوئی۔ اموی خلفاء نے علم و ادب کی سرپرستی کی اور مختلف علوم کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالا۔ ان کی چند اہم علمی خدمات درج ذیل ہیں:

  • عربی زبان کی ترقی: اموی دور میں عربی زبان کو سرکاری اور علمی زبان کی حیثیت حاصل ہوئی۔ اس دور میں عربی ادب نے بہت ترقی کی، شعراء اور خطباء کو شاہی دربار سے وابستگی حاصل ہوئی۔ فصاحت و بلاغت کو خاص اہمیت دی گئی۔
  • حدیث کی تدوین کا آغاز: حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور میں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی باقاعدہ تدوین کا آغاز ہوا۔ انہوں نے علماء کو احادیث جمع کرنے اور انہیں مرتب کرنے کا حکم دیا۔ یہ ایک انتہائی اہم علمی کارنامہ تھا جس نے علم حدیث کی بنیاد رکھی۔
  • تاریخ نویسی کی ابتداء: اموی دور میں تاریخ نویسی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی تاریخی روایات موجود تھیں، لیکن اس دور میں باقاعدہ تاریخی واقعات کو قلمبند کرنے کا رواج شروع ہوا۔
  • تراجم کی سرپرستی: بعض اموی خلفاء نے یونانی اور دیگر زبانوں کے علمی کاموں کو عربی میں ترجمہ کرنے کی سرپرستی کی۔ اگرچہ یہ سلسلہ عباسی دور میں زیادہ عروج پر پہنچا، لیکن اس کی ابتدائی جھلکیاں اموی دور میں بھی نظر آتی ہیں۔
  • مساجد کا کردار: اموی دور میں مساجد صرف عبادت گاہیں ہی نہیں تھیں بلکہ علم کے مراکز بھی تھیں۔ ان میں دینی تعلیم دی جاتی تھی اور علمی مباحثے ہوتے تھے۔ علماء اور فقہاء مساجد میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے۔
  • مدارس کا قیام: اگرچہ باقاعدہ مدارس کا نظام عباسی دور میں زیادہ منظم ہوا، لیکن اموی دور میں بھی علمی حلقے اور درس گاہیں موجود تھیں جہاں مختلف علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔
  • فن تعمیر اور فنون لطیفہ کی سرپرستی: اموی خلفاء نے فن تعمیر اور فنون لطیفہ کی بھی سرپرستی کی۔ انہوں نے شاندار مساجد اور محلات تعمیر کروائے جن میں اسلامی فن تعمیر کے ابتدائی نقوش ملتے ہیں۔
  • علماء کی قدردانی: اموی خلفاء علماء اور اہل علم کی قدر کرتے تھے اور انہیں اپنے درباروں میں عزت و احترام دیتے تھے۔ ان سے مشورے کیے جاتے تھے اور ان کی علمی بصیرت سے فائدہ اٹھایا جاتا تھا۔

یہ درست ہے کہ اموی دور سیاسی کشمکش اور بعض ناپسندیدہ واقعات سے بھی عبارت ہے، لیکن علمی میدان میں اس دور کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس دور میں عربی زبان و ادب، حدیث، تاریخ اور فن تعمیر جیسے علوم نے ابتدائی مراحل طے کیے جو بعد میں اسلامی تہذیب کے عروج کا سبب بنے۔


سوال نمبر 4- عشور کس چیز پر وصول کی جاتی ہے؟ تفصیل سے تحریر کریں۔

عشور ایک اسلامی اصطلاح ہے جس کا لغوی معنی دسواں حصہ ہے۔ شرعی اصطلاح میں یہ اس زکوٰۃ کو کہتے ہیں جو زرعی پیداوار پر وصول کی جاتی ہے۔ قرآن و سنت میں اس کی مشروعیت ثابت ہے۔ عشور درج ذیل چیزوں پر وصول کی جاتی ہے:

  • غلہ جات (اناج): گندم، جو، چاول، مکئی اور دیگر تمام قسم کے غلے جو زمین سے اگائے جاتے ہیں اور جنہیں بطور خوراک استعمال کیا جاتا ہے۔
  • پھل: کھجور، کشمش، انگور، زیتون اور دیگر وہ تمام پھل جو زمین سے حاصل ہوتے ہیں اور جنہیں ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ بعض فقہاء کے نزدیک تمام قسم کے پھلوں پر عشور واجب ہے۔
  • سبزیاں: بعض فقہاء کے نزدیک زمین سے اگائی جانے والی تمام سبزیوں پر بھی عشور واجب ہے، جبکہ بعض دیگر فقہاء اسے ضروری نہیں سمجھتے اور اسے صدقہ نافلہ میں شمار کرتے ہیں۔

عشور کی شرح:

عشور کی شرح کا انحصار اس بات پر ہے کہ زمین کو سیراب کرنے کا ذریعہ کیا ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں:

  • بارانی یا قدرتی وسائل سے سیراب شدہ زمین: ایسی زمین جو بارش کے پانی، نہروں یا چشموں کے قدرتی پانی سے سیراب ہوتی ہے، اس کی پیداوار کا دسواں حصہ (1/10 یا 10%) عشور کے طور پر ادا کیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں کاشتکار کی زیادہ محنت شامل نہیں ہوتی۔
  • مصنوعی وسائل سے سیراب شدہ زمین: ایسی زمین جسے کنویں، ٹیوب ویل یا دیگر مصنوعی طریقوں سے سیراب کیا جاتا ہے، اس کی پیداوار کا بیسواں حصہ (1/20 یا 5%) عشور کے طور پر ادا کیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں کاشتکار کی محنت اور خرچہ شامل ہوتا ہے۔

عشور کی ادائیگی کے شرائط:

  • زمین کا عشری ہونا: ایسی زمین جو اسلامی حکومت کے زیر انتظام ہو اور عشری قرار دی گئی ہو۔
  • پیداوار کا نصاب کو پہنچنا: بعض فقہاء کے نزدیک عشور اس وقت واجب ہوتا ہے جب پیداوار ایک خاص مقدار (نصاب) کو پہنچ جائے۔ اس نصاب میں اختلاف ہے، لیکن ایک قول کے مطابق پانچ وسق (تقریباً 653 کلوگرام) ہے۔
  • پیداوار کا اپنی ذات سے بڑھنے والا ہونا: عشور صرف ان چیزوں پر واجب ہوتا ہے جو زمین سے اپنی ذات سے اگتی ہیں۔ معدنیات اور دیگر زمینی دولت پر عشور واجب نہیں ہے۔
  • ایک سال کا گزرنا شرط نہیں: زکوٰۃ کے برعکس، عشور واجب ہونے کے لیے پیداوار پر ایک سال کا گزرنا شرط نہیں ہے، بلکہ ہر فصل پر جب پیداوار حاصل ہو تو عشور ادا کرنا لازم ہے۔

عشور کی ادائیگی اسلامی نظام معیشت کا ایک اہم حصہ ہے اور اس کا مقصد معاشرے کے غریب اور مستحق افراد کی مدد کرنا ہے۔


سوال نمبر 5- حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی تحریک پر جامع نوٹ لکھیں۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ، نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے فرزند تھے۔ ان کی تحریک اسلامی تاریخ کا ایک اہم اور المناک باب ہے۔ اس تحریک کا بنیادی سبب یزید بن معاویہ کی خلافت کو تسلیم نہ کرنا تھا۔

پس منظر:

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد ان کے بیٹے یزید کی ولی عہدی کا اعلان ہوا، جو اسلامی نظام شوریٰ کے منافی تھا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے دیگر کئی صحابہ کرام اور جلیل القدر شخصیات کے ساتھ اس بیعت سے انکار کر دیا۔ اہل کوفہ نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو خطوط لکھ کر اپنی حمایت کا یقین دلایا اور انہیں کوفہ آنے کی دعوت دی تاکہ وہ ان کی قیادت میں یزید کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔

تحریک کا آغاز اور کربلا کا سفر:

اہل کوفہ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے اہل و عیال اور چند ساتھیوں کے ساتھ مکہ سے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے۔ راستے میں انہیں خبر ملی کہ یزید کے گورنر عبیداللہ بن زیاد نے کوفہ میں بغاوت کو سختی سے کچل دیا ہے اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے حامیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

اس صورتحال کے باوجود حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنا سفر جاری رکھا۔ کربلا کے مقام پر یزیدی فوج نے انہیں گھیر لیا اور انہیں تین شرائط پیش کیں:

  1. یزید کی بیعت کر لیں۔
  2. کہیں اور چلے جائیں۔
  3. جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ اسے حق و انصاف کے منافی سمجھتے تھے۔ انہوں نے جنگ کو بھی ناپسند کیا لیکن جب کوئی چارہ نہ رہا تو اپنے قلیل ساتھیوں کے ساتھ یزیدی فوج کا مقابلہ کیا۔

واقعہ کربلا:

محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو کربلا کے میدان میں ایک خونریز جنگ ہوئی جس میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے بیشتر ساتھی بھوک اور پیاس کی شدت کے باوجود بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ اس واقعے میں اہل بیت اطہار پر جو مظالم ڈھائے گئے وہ تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔

تحریک کے اثرات:

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی تحریک اگرچہ ظاہری طور پر ناکام ہوئی، لیکن اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ اس واقعے نے حق و باطل کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دی اور ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرنے کی ایک لازوال مثال قائم کی۔ اس تحریک نے بعد میں آنے والی کئی تحریکوں کو inspiration بخشی اور مسلمانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑا۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی قربانی نے یہ پیغام دیا کہ حق کی خاطر جان قربان کر دینا باطل کے سامنے سر جھکانے سے کہیں افضل ہے۔ ان کی تحریک عدل، انصاف اور حق پرستی کی علامت بن گئی اور آج بھی دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایک روشن مثال ہے۔

No comments:

Post a Comment