گول میز کانفرنسوں پر تبصرہ کریں۔
گول میز کانفرنسیں — تعارف
برطانوی حکومت نے ہندوستان کے آئینی مستقبل پر غور و خوض کے لیے 1930ء تا 1932ء کے درمیان لندن میں تین گول میز کانفرنسیں بلائیں۔ مقصد مختلف طبقات، مذہبی برادریوں اور سیاسی جماعتوں کو ایک میز پر بٹھا کر ایسا آئینی فریم ورک تلاش کرنا تھا جو قابلِ قبول ہو۔ یہ اجلاس اس دور کی سیاسی کشمکش اور آئینی بحث کا مرکز بنے اور بعد ازاں برصغیر کی سیاسی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
پہلی گول میز کانفرنس (1930ء)
نومبر 1930ء میں ہونے والی پہلی کانفرنس میں کانگریس نے بائیکاٹ کیا کیونکہ گاندھی جی کی قیادت میں سول نافرمانی جاری تھی۔ اس کے باوجود مختلف برادریوں کے نمائندے شریک ہوئے۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے جداگانہ انتخاب اور مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی ضمانت کا مطالبہ کیا۔ اس اجلاس نے واضح کیا کہ برصغیر کے مختلف طبقات کے سیاسی مفادات منفرد اور بعض اوقات متصادم ہیں، جس نے آئینی مذاکرات کو پیچیدہ بنا دیا۔
دوسری گول میز کانفرنس (1931ء)
ستمبر 1931ء کی دوسری کانفرنس میں کانگریس شریک ہوئی اور گاندھی جی نے اپنی نمائندگی کی۔ اس بار محمد علی جناح نے مسلمانوں کے الگ قومی تشخص اور سیاسی حقوق کا مضبوط دفاع کیا۔ گاندھی جی اور جناح کے درمیان نظریاتی اختلافات سامنے آئے؛ گاندھی نے مسلمانوں کو ہندو معاشرے کا حصہ سمجھنے کی کوشش کی جبکہ جناح نے دو قومی نظریے کی بنیادیں مضبوط کیں۔ یہ اجلاس دو اہم نظریاتی دھاروں کی ٹکر کا آئینہ دار تھا۔
تیسری گول میز کانفرنس (1932ء)
نومبر 1932ء کو منعقدہ تیسری کانفرنس میں کانگریس دوبارہ شریک نہ ہوئی اور مذاکرات محدود رہے۔ مختلف تجاویز پر اتفاق نہ ہو سکا اور برطانوی حکمرانوں نے بالآخر یکطرفہ طور پر کمیونل ایوارڈ جاری کر دیا۔ اس فیصلے نے اقلیتوں کے لیے جداگانہ انتخاب کی منظوری دی، جس نے آئینی حل تلاش کرنے کی پیچیدگیوں کو مزید بڑھایا اور قوم پرست تحریکوں میں شدت لائی۔
نتیجہ اور تاریخی اہمیت
گول میز کانفرنسوں نے یہ بات واضح کی کہ برصغیر میں مختلف مذہبی اور لسانی طبقات کے سیاسی مفادات عموماً جدا تھے۔ ان اجلاسوں نے دو قومی نظریے کو تقویت دی اور مسلمانوں میں الگ سیاسی وحدت کا شعور بڑھایا۔ نتیجتاً یہ کانفرنسیں اور ان کے بعد آنے والے برطانوی فیصلے پاکستان کے قیام کے فکری اور سیاسی راستے کو روشن کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment