کمیونل ایوارڈ



کمیونل ایوارڈ


کمیونل ایوارڈ — تعارف

برطانوی وزیراعظم ریمزے میکڈونلڈ نے 16 اگست 1932ء کو ہندوستان کے سیاسی مستقبل اور نمائندگی کے مسائل کے حل کے لیے "کمیونل ایوارڈ" کا اعلان کیا۔ اس کا مقصد مختلف مذہبی اور سماجی طبقات کو سیاسی نمائندگی فراہم کر کے ان کے خدشات دور کرنا تھا۔ تاہم یہ اعلان برصغیر کی سیاست پر گہرے اور دیرپا اثرات مرتب کرنے والا ثابت ہوا۔


پس منظر

گول میز کانفرنسوں میں ہندو اکثریت اور مسلم اقلیت کے نمائندوں کے درمیان نمائندگی کے طریقہ کار پر اتفاق رائے نہ بن سکا۔ ہندو لیڈرشپ یک معاشرتی انتخابی نظام کی خواہاں تھی جبکہ مسلم رہنما جداگانہ نشستوں کے حامی رہے۔ اختلافات کے باعث برطانوی حکومت نے یکطرفہ طور پر کمیونل ایوارڈ جاری کیا تاکہ فوری طور پر نمائندگی کے مسائل کو حل کیا جا سکے۔


اہم نکات

کمیونل ایوارڈ نے مختلف طبقات جیسے ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی، پارسی اور ہندو نچلی ذاتوں کے لیے جداگانہ انتخابی ارکان تجویز کیے۔ مسلم نشستوں میں اضافہ کیا گیا اور صوبائی سطح پر سیٹوں کی تقسیم بھی طے کی گئی۔ ایوارڈ نے سیاسی نمائندگی کو برادری کی بنیاد پر منظم کیا، جس سے برصغیر میں سیاسی تقسیم واضح طور پر تقویت پائی۔


مسلمانوں کا ردعمل

مسلمانوں نے کمیونل ایوارڈ کو ایک بڑی کامیابی سمجھا کیونکہ اس نے ان کے لئے جداگانہ انتخاب اور نمائندگی برقرار رکھی۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے اسے اپنی سیاسی جدوجہد کی فتح قرار دیا اور اس سے مسلمانوں میں الگ سیاسی شناخت اور اتحاد کا شعور مزید مضبوط ہوا، جس نے بعد ازاں دو قومی نظریے کی بنیاد مضبوط کرنے میں مدد دی۔


ہندوؤں کا ردعمل

کانگریس اور دیگر ہندو رہنماؤں نے اس ایوارڈ کی سخت مخالفت کی، اس کو قومی یکجہتی کے خلاف اور تقسیم کو ہوا دینے والا قرار دیا۔ ان کا موقف تھا کہ برطانیہ نے اقلیتوں کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر الگ کر کے ہندوستان کی سیاسی تقسیم کو بڑھا دیا، جس سے قوم پرستی اور اتحاد کی کوششوں کو نقصان پہنچا۔


نتیجہ

کمیونل ایوارڈ نے ہندوستانی سیاست میں فرقہ وارانہ نمائندگی کو قانونی حیثیت دی اور دو قومی نظریے کو تقویت فراہم کی۔ اگرچہ اس نے بعض طبقات کو فوری تحفظ فراہم کیا، مگر طویل مدتی طور پر یہ فیصلے نے سیاسی فاصلے بڑھائے اور بالآخر برصغیر کی تقسیم اور قیامِ پاکستان کے فکری و سیاسی راستے کو ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔


No comments:

Post a Comment