AIOU 0201 Islamiat Solved Assignment 1 Spring 2025
AIOU 0201 Assignment 1
سوال نمبر 1 - قرآن مجید کی تلاوت کے آداب اور تعلیمات کے اثرات تحریر کریں۔
قرآن کی تلاوت کے آداب
- پاکیزگی: قرآن کی تلاوت سے پہلے وضو کرنا ضروری ہے تاکہ دل و دماغ پاک ہوں۔
- خشوع و خضوع: تلاوت کے دوران دل میں اللہ کا خوف اور احترام ہونا چاہیے۔
- صحیح تلفظ: قرآن کو صحیح تلفظ اور تجوید کے ساتھ پڑھنا آداب میں شامل ہے۔
- خاموشی: قرآن کی تلاوت کے دوران مکمل خاموشی اور توجہ ہونا ضروری ہے۔
- دعا: تلاوت کے آغاز میں اللہ سے رہنمائی کی دعا کرنی چاہیے۔
قرآن کی تعلیمات کے اثرات
- روحانی سکون: قرآن کی تعلیمات انسان کو سکون اور قلبی اطمینان عطا کرتی ہیں۔
- اخلاقی تربیت: قرآن اچھے اخلاق اور حسنِ کردار کی تلقین کرتا ہے۔
- زندگی کی رہنمائی: قرآن مجید انسانی زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
- جماعتی اتحاد: قرآن مسلمانوں کو یکجہتی اور بھائی چارے کی طرف بلاتا ہے۔
- علم و حکمت: قرآن علم حاصل کرنے اور غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
سوال نمبر 2 - سورة قريش مع ترجمہ خوشخط تحریر کریں، نیز درج ذیل آیت کریمہ مع ترجمہ و تشریح لکھیں۔
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ(1) اٖلٰفِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَآءِ وَ الصَّیْفِ(2) فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَیْتِ(3) الَّذِیْۤ اَطْعَمَهُمْ مِّنْ جُوْ عٍ وَّ اٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ(4)
ترجمہ
اس لیے کہ قریش کو مَیل دلایا ان کے جاڑے اور گرمی دونوں کے کوچ میں میل دلایا(رغبت دلائی)تو انہیں چاہیے اس گھر کے رب کی بندگی کریںجس نے انہیں بھوک میں کھانا دیا اور انہیں ایک بڑے خوف سے امان بخشا۔
وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَ زِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِؕ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا (35)
ترجمہ
اور جب ناپ کرو تو پورا ناپ کرو اور بالکل صحیح ترازو سے وزن کرو ۔یہ بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے اچھا ہے۔
تشریح
یہ آیت ایک مضبوط پیغام پیش کرتی ہے: ناپ تول اور وزن میں انصاف کرنا انسانی اور اسلامی فریضہ ہے۔ اس کی تفسیر کے مطابق، نہ صرف پورا ناپ تول دینا فرض ہے بلکہ کچھ زیادہ دینا مستحب بھی ہے۔ اس عمل کے دنیاوی فوائد میں نیک نامی، تجارت میں برکت، اور دنیا بھر میں اعتماد حاصل کرنا شامل ہیں۔ آخرت میں اس کا اجر یقینا بلند ہوگا۔ سادہ الفاظ میں: یہ تعلیم ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ایمانداری اور انصاف کے اصول نہ صرف ہمارے دلوں کو صاف رکھتے ہیں بلکہ ہمارے معاشرتی اور مالی تعلقات کو بھی مضبوط بناتے ہیں۔ اچھے اخلاق ہمیشہ بہترین نتائج فراہم کرتے ہیں۔
سوال نمبر 3 - تدوین حدیث پر مختصر اور جامع نوٹ تحریر کریں۔
تدوینِ حدیث کا مطلب احادیثِ مبارکہ کو تحریری شکل میں محفوظ کرنا اور انہیں ضائع ہونے یا تحریف سے بچانا ہے۔ ابتدائی طور پر، عہدِ نبوی ﷺ میں صحابۂ کرام زبانی یاد کرتے اور بعض احادیث لکھا بھی کرتے تھے، جیسے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ۔ خلفائے راشدین کے دور میں احادیث کو باقاعدہ جمع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تاکہ اسلامی تعلیمات محفوظ رہ سکیں۔ تابعین کے دور میں اس عمل کو مزید تقویت ملی اور امام زہری جیسے علماء نے حدیث کی باقاعدہ تدوین کا آغاز کیا۔ بعد ازاں، مشہور کتبِ حدیث جیسے صحیح بخاری اور صحیح مسلم مرتب ہوئیں، جنہوں نے احادیث کو موضوع اور صحت کے اعتبار سے منظم انداز میں محفوظ کیا۔ اس اہم اقدام کا مقصد یہ تھا کہ اسلامی تعلیمات اپنی اصل شکل میں نسل در نسل منتقل ہوں اور دینِ اسلام کی صداقت کو برقرار رکھا جا سکے۔
تین آدمی ہوں تو ان میں دو چپکے چپکے سرگوشی نہ کریں بغیر تیسرے کی رضا کے۔
سوال نمبر 4 - درج حدیث مبارکہ کا ترجمہ و تشریح کریں:
إِذَا كُنتُمْ ثَلَاثَةٌ فَلَا يتناجى اثْنَانِ دُونَ الْآخَرِ
ترجمہ
تین آدمی ہوں تو ان میں دو چپکے چپکے سرگوشی نہ کریں بغیر تیسرے کی رضا کے۔
تشریح
یہ حدیث شریف کا ایک حصہ ہے جو نبی کریم ﷺ کے اخلاقی تعلیمات پر مبنی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جب تین لوگ ایک جگہ پر ہوں، تو ان میں سے دو کو دوسرے کو چھوڑ کر سرگوشی نہیں کرنی چاہیے۔ اس عمل سے تیسرے شخص کے دل میں تنہائی یا حقارت کا احساس پیدا ہو سکتا ہے، اور یہ اسلامی معاشرتی اصولوں کے خلاف ہے۔ اس حدیث سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے اور ایسے رویے سے گریز کرنا چاہیے جو کسی کو بےچینی یا شرمندگی میں مبتلا کرے۔ اسلام کے اخلاقی اصولوں میں دوسروں کے حقوق، عزت، اور احساسات کا احترام کرنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔
سوال نمبر 5 - چار اہم فرشتوں کے نام ، ان کے کام اور فرشتوں کے دیگر کاموں پر مفصل نوٹ تحریر کریں۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام کا بنیادی کام اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء کرام تک وحی پہنچانا ہے۔ انہیں فرشتۂ وحی یا "امین" کہا جاتا ہے۔
حضرت میکائیل علیہ السلام رزق اور بارش کی تقسیم کے ذمہ دار ہیں اور وہ قدرتی نظامات کو اللہ کے حکم سے چلاتے ہیں۔
حضرت اسرافیل علیہ السلام کا کام قیامت کے دن صور پھونکنا ہے، جو دنیا کے خاتمے اور دوبارہ زندگی کے آغاز کی علامت ہوگا۔
حضرت عزرائیل علیہ السلام، جنہیں ملک الموت بھی کہا جاتا ہے، اللہ کے حکم سے روح قبض کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
دیگر فرشتوں کے کام
فرشتے دیگر بے شمار ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں جیسے:- کراماً کاتبین: انسان کے اعمال لکھنے والے فرشتے۔
- مالک: جہنم کے نگران۔
- رضوان: جنت کے دروازوں کے نگران۔
- حاملینِ عرش: عرشِ الٰہی کو اٹھانے والے فرشتے۔
- اللہ کی حمد و ثناء میں مشغول فرشتے۔
No comments:
Post a Comment